رفعت مختار راجہ: ایف آئی اے میں شفافیت کیلئے کوشاں

سیاست کے گرداب اور حکمرانی کی کٹھن راہوں میں پاکستان میں یہ تاثر عام ہے کہ یہاں کے سرکاری ادارے محض فائلوں کے ڈھیر اور سست روی کا شکار ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے یہاں کی بیوروکریسی میں کوئی جان نہیں، گفتگو بے روح ہے اور فیصلے بے اثر۔ لیکن کبھی ایسے غیرمعمولی لوگ بھی سامنے آتے ہیں جو اس سوچ کو غلط ثابت کر دیتے ہیں۔ وہ یہ یقین دلاتے ہیں کہ ریاست کے اس نظام میں ابھی بھی بہتری کی گنجائش باقی ہے۔ ایسا ہی ایک نام ڈی جی ایف آئی اے رفعت مختار راجہ کا ہے۔ چند روز قبل ہمدم دیرینہ عون عباس ساہی کے ہمراہ جب ہم ڈی جی ایف آئی اے رفعت مختار راجہ سے غیر رسمی ملاقات کیلئے پہنچے تو ہمارے ذہن میں وہی خیالات تھے جو سرکاری ملاقاتوں سے جڑے ہوتے ہیں، لیکن چند ہی لمحوں میں یہ تاثر ختم ہو گیا۔ ان کی باتوں میں ایک کاٹ دار صداقت تھی جو روایتی بیوروکریسی کی بے روح باتوں سے کوسوں دور تھی۔ ان کے جملوں میں کہیں طنز، کہیں مزاح اور کہیں فلسفے کی گہرائی تھی۔ سب سے بڑھ کر ایسا لہجہ جو سماج کے ناسور زدہ حصوں پر براہ راست نشتر لگاتا تھا۔ وہ صرف ایک اعلیٰ افسر ہی نہیں بلکہ ایک معاشرتی سائنسدان دکھائی دے رہے تھے جو مسائل کی جڑ تک پہنچنے کا ہنر جانتے ہیں۔ اس ملاقات کا سب سے یادگار حصہ ان کا دیا ہوا فلسفہ تھا۔ ’’محدود رہیں، محفوظ رہیں‘‘۔ یہ جملہ محض ایک حفاظتی ہدایت نہیں تھا بلکہ ہمارے اجتماعی رویوں پر ایک گہرا تبصرہ تھا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ہم پاکستانی بحیثیت قوم ہر چیز میں حد سے تجاوز کرنے کے عادی ہو چکے ہیں، چاہے وہ غیر ضروری بات چیت ہو، غیر ذمہ دارانہ رویہ ہو یا وسائل کا بے جا استعمال۔ ان کے بقول اگر ہم اپنی اپنی حد میں رہیں تو نہ صرف اپنی بلکہ دوسروں کی بھی حفاظت کر سکتے ہیں۔ یہ فلسفہ سکیورٹی کے معاملات سمیت زندگی کے ہر پہلو میں رہنمائی فراہم کرتا ہے۔
رفعت مختار راجہ کے وژن کی جھلک ایف آئی اے میں جاری اصلاحات میں صاف نظر آتی ہے۔ انہوں نے یہ اصلاحات کسی رسمی پروٹوکول کے تحت نہیں بلکہ ایک انقلابی سوچ کے ساتھ شروع کی ہیں۔ یہ کام محض فائلوں میں موجود نہیں بلکہ ایک حقیقی انقلابی سوچ کا نتیجہ ہے۔ پاکستان کے بڑے ایئرپورٹس پر غیر ملکی مسافروں کے لیے خصوصی امیگریشن کاؤنٹرز قائم کیے گئے ہیں تاکہ سرمایہ کاروں اور سیاحوں کو قطاروں میں انتظار کی تکلیف نہ ہو۔ اس اقدام سے پاکستان کا امیج بہتر ہوا ہے اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم اپنے مہمانوں کی قدر کرتے ہیں۔ یہ عالمی سطح پر مثبت سفارتی پیغام بھی ہے۔ منی لانڈرنگ کے خلاف جنگ میں انہوں نے نئے ایس او پیز جاری کیے ہیں، جن کے تحت اب ایف آئی آر صرف ٹھوس ثبوتوں کی بنیاد پر درج ہو گی تاکہ سیاسی یا ذاتی دباؤ پر بے بنیاد مقدمات کا سلسلہ ختم ہو سکے۔ اسی طرح ہر کیس کی تفتیش کے لیے ایک ٹائم لائن مقرر کی گئی ہے تاکہ معاملات کو غیر ضروری طور پر طول نہ دیا جائے۔ ادارے کے اندرونی احتساب کو یقینی بنانے کے لیے ڈائریکٹوریٹ آف انٹرنل اکاؤنٹیبلٹی قائم کیا گیا ہے جو ایف آئی اے کے اہلکاروں کی کارکردگی اور دیانتداری پر نظر رکھتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سائنسی تفتیش کو فروغ دینے کے لیے جدید ترین فرانزک لیب قائم کی گئی ہے جو سائبر کرائمز اور بینکنگ فراڈ جیسے جرائم کی تفتیش میں مدد کرے گی اور تفتیشی عمل کو سائنسی اور درست بنائے گی۔ عوامی اعتماد کی بحالی کے لیے ڈائریکٹوریٹ آف پبلک ریلیشنز کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جو عوام اور ادارے کے درمیان شفاف اور بروقت رابطے کو یقینی بنائے گا۔ ان تمام اقدامات کا مقصد ایف آئی اے کو جدید، شفاف اور عوام دوست ادارہ بنانا ہے۔
رفعت مختار راجہ کی قیادت کو ایک اور شخصیت نے چار چاند لگا دیے ہیں اور وہ ہیں ڈاکٹر اکبر ناصر خان۔ وہ محض ایک بیوروکریٹ نہیں ہیں بلکہ ایک نابغہ روزگار شخصیت ہیں جو سکیورٹی انٹیلی جنس اور انسداد دہشتگردی کے ساتھ ساتھ ادبی ذوق بھی رکھتے ہیں۔ ان کے ساتھ ملاقات کا انداز بالکل مختلف تھا۔ وہ کسی افسر کی بجائے ایک استاد، محقق اور صوفی شاعر کی طرح دکھائی دیے۔ ان کی شخصیت میں نرمی اور وقار کا ایسا امتزاج ہے کہ سوال کرنے والے کا لہجہ بھی احترام سے بھر جاتا ہے۔ ان کی حالیہ کتاب ’’سریاب‘‘ محض ایک شعری مجموعہ نہیں بلکہ ایک فکری اور روحانی سفر ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے رومانوی لمس، صوفیانہ جھلک اور پشتو کے عظیم شاعر غنی خان کے کلام کا ترجمہ بھی شامل کیا ہے لیکن اس کتاب کا سب سے اہم حصہ ’’ماں بولی‘‘ ہے جہاں انہوں نے اپنی مادری زبان میں ایسے احساسات کو قلمبند کیا ہے جو کسی اور زبان میں بیان کرنا ناممکن ہے۔ ایک نظم کے چند مصرعے یوں ہیں۔
یار میرے کیوں پچھے رہ گئے
ایتھوں پچھے موڑ تے نئیں ناں
یہ مصرعے محض رومانوی دکھ نہیں بلکہ اجتماعی احساسِ محرومی کی جھلک بھی ہیں۔ شاعر نے ذاتی واردات کو سماجی تجربے کے ساتھ جوڑ دیا ہے۔
اسی طرح ایک اور مقام پر لکھتے ہیں۔
روشنی میں دیا بھی جلنے دیں
کوئی کرتا ہے کام کرنے دیں
ہاتھ خوشبو کا تھامیے صاحب!
کوئی تو کاروبار چلنے دیں!
ایک جگہ لکھتے ہیں۔
یزید وقت کئی روپ میں ہے جلوہ نما
مگر سبھی کو اکیلا حسین کافی ہے
کوئی تو اسم مجھے بھی عطا ہو مالک کل!
مجھے ملا ہے اشارہ ،حسین کافی ہے
یہ مصرعے ایک ایسے افسر کے قلم سے نکلے ہیں جو زندگی بھر جھوٹ اور فریب کے خلاف لڑتا رہا ہے۔ یہ اشعار بیوروکریسی کے سخت اصولوں کو انسانی جذبات اور سچائی کی ابدی طاقت سے جوڑتے ہیں۔ ’’سریاب‘‘ صرف ایک کتاب نہیں بلکہ اس بات کی گواہی ہے کہ سرکاری کرسی پر بیٹھے لوگ بھی اپنے دل میں شاعری اور خوابوں کا چراغ روشن رکھ سکتے ہیں۔ رفعت مختار راجہ اور ڈاکٹر اکبر ناصر خان کی شخصیات میں ایک دلکش تضاد ہے۔ رفعت صاحب کی مجلس میں قہقہے اور کاٹ دار جملے غالب ہیں جبکہ ڈاکٹر صاحب کی محفل میں سماجی فکر، صوفیانہ نرمی اور شاعری کی مٹھاس محسوس ہوتی ہے۔ دونوں اپنے اپنے انداز میں اس تاثر کو توڑتے ہیں کہ بیوروکریسی صرف خشک فائلوں اور بے روح ملاقاتوں کا نام ہے۔
پاکستان اس وقت بہت سے چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے، جیسا کہ ادارہ جاتی بدعنوانی، منظم جرائم اور دہشتگردی کی مالی معاونت۔ ایسے حالات میں ایف آئی اے کا کردار انتہائی اہم ہے۔ رفعت مختار راجہ کی قیادت میں ہونے والی اصلاحات اور ڈاکٹر اکبر ناصر خان جیسے مدبر و دانا افسران کی فکری گہرائی یہ امید دلاتی ہے کہ یہ ادارہ اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرے گا اور عوام کا اعتماد دوبارہ حاصل کرے گا۔ یہ ملاقات محض ایک نشست نہیں تھی بلکہ ایک ایسے سفر کا آغاز تھا جس میں بیوروکریسی کو ایک نئی سمت دی جا رہی ہے۔ اگر یہ قیادت اپنے عزم پر قائم رہی تو یقیناً یہ دور ایف آئی اے کی تاریخ میں ایک سنہری باب کے طور پر لکھا جائے گا اور اس باب کے آغاز پر وہی جملہ ہمیشہ کندہ رہے گا: ’’محدود رہیں، محفوظ رہیں‘‘۔










