لوگوں کی فضول باتوں پر توجہ نہ دیجئے

میں نے لوگوں کی تنقید، مشورے اور باتیں ملاحظہ کیںکہ سب لوگ ایک جیسے نہیں ہیں۔ بعض لوگ سچے دل سے نصیحت کرتے ہیں، مگر انہیں نصیحت کرنے کا فن نہیں آتا۔ لہٰذا ایسا شخص نصیحت سے آپ کو پریشان کرے گا،اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ حسد کرنے والا شخص آپ کو نصیحت سے پریشان اور غمگین کرنا چاہتا ہے۔ اور ایسا شخص بھی ہے کہ جو نصیحت کی بات کرتا ہے اسے خود کو معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔اس جیسا شخص اگر خاموش رہے تو بہتر ہو گا۔

اور ایسا شخص بھی ہوتا ہے کہ جس کی طبیعت میں تنقید کا مادہ رچا ہوا ہوتا ہے تو اس جیسا دنیا کو بری نظروں سے دیکھتا ہے،لکھا ہے کہ ایک پاگل اپنے گدھے پر بیٹھا جا رہا تھا اور ساتھ ساتھ پاگل کا بیٹا پیدل چل رہا تھا۔کچھ لوگ گزرے تو انہوں نے کہا دیکھو باپ کتنے سخت دل کا ہے کہ خود سوار ہے اور بیٹے کو پیدل چلا رہا ہے۔

پاگل گدھا روک کر خود اترا اور بیٹے کو گدھے پر سوار کر دیا،کچھ آگے گئے تو لوگوں نے کہا دیکھو کتنا نافرمان بیٹا ہے کہ اپنے باپ کو پیدل چلا رہا ہے اور خود سوار ہے،پاگل نے ان کی بات سنی تو گدھے کو روک کر خود بھی سوار ہو گیا،تھوڑا آگے چلے تو لوگوں نے کہا دیکھو یہ دونوں کتنے سخت دل کے ہیں کہ جانور پر شفقت نہیں کر رہے،پاگل نے جب ان کی بات سنی تو گدھا روک کر دونوں نیچے اتر آئے اور گدھے کے ساتھ پیدل چلنے لگے،تھوڑا آگے گئے تو لوگوں نے کہا،دیکھو یہ دونوں پاگل ہیں کہ سواری کے باوجود پیدل چل رہے ہیں،پاگل تنگ آ کر چلانے لگا،پھر خود گدھے کے نیچے گھس گیا اور بیٹے کو بھی ساتھ لے لیا اور گدھے کو اپنی پیٹھ پر اٹھا لیا۔

اگر اس زمانہ میں میں ہوتا تو اسے کہتا،اے میرے بھائی!جیسا تو چاہتا ہے ویسے کر تمہاری مرضی۔ لوگوں کی باتوں میں نہ آنا،لوگوں کو راضی رکھنا یہ ایک نہایت مشکل کام ہے،جس تک کوئی نہیں پہنچ سکتا۔

بعض لوگ سوچے سمجھے بغیر بولتے ہیں،مثلاً آپ سے شادی کے بعد کوئی کہنے لگے،ارے! تم نے فلاں کی بیٹی سے شادی کیوں کی ہے؟ کیوں رشتہ کیا ہے؟ مجھے لگتا ہے آپ کا دل چاہے گا کہ آپ اسے چلا کر کہہ دیں ارے بھائی! اب تو شادی کر چکا ہوں بس کام ختم ہو گیا تم سے کسی نے مشورہ لیا ہے؟

ایک عربی شعر کا مفہوم ہے کہ’’ ہر انسان کا دشمن ہوتا ہے چاہے وہ پہاڑ کی چوٹی پر تنہا ہو کر ہی کیوں نہ بیٹھ جائے۔ لہٰذا آپ اپنے آپ کو پریشان نہ کرو۔‘‘ لوگوں کو راضی رکھنا یہ ایک آخری درجہ ہے، جس تک کوئی نہیں پہنچ سکتا۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button