سیاسی تجربات میں حب الوطنی اور غداری کے سرٹیفکیٹس
اختلافات کسی بھی معاشرے کا لازمی حصہ تصور کئے جاتے ہیں، اختلافات کو معاشرے کا حسن اس لئے کہا جاتا ہے کیونکہ یہ آگے بڑھنے کا زینہ ہے، اگر یہ اختلافات مثبت و تعمیری تنقید سے تجاوز کر جائیں تو تباہی کا باعث بن جاتے ہیں۔ پاکستان کے معروضی حالات میں دیکھا جائے تو کسی دور میں بھی تعمیری اختلافات نہیں ہوئے جس سیاسی جماعت کو حکومت کا موقع ملا اس نے سیاسی حریفوں کو ملک دشمن قرار دے کر خود کو حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ جاری کیا۔ پاکستان کی 76 سالہ تاریخ میں سیاسی انتقام کی درجنوں مثالیں بکھری پڑی ہیں، جنہیں یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں ہے، ہم صرف تحریک انصاف کے ساڑھے تین سال اور اتحادی حکومت کے سولہ ماہ کا سرسری جائزہ لینے پر اکتفا کریں گے۔
2018 کے انتخابات میں تحریک انصاف کو کامیابی حاصل ہوئی اور وہ وفاق کے ساتھ ساتھ تین صوبوں میں حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئی، چیئرمین پی ٹی آئی چونکہ حکومت میں آنے سے پہلے ہی سیاسی حریفوں کو ملک دشمن اور کرپٹ قرار دے رہے تھے لیکن جب ان کی حکومت قائم ہوئی تو سیاسی مخالفین پر مقدمات بننے شروع ہو گئے، دو بڑی سیاسی جماعتوں کے صف اول کے قائدین کو گرفتار کر کے جیلوں میں ڈالا گیا، صرف یہی نہیں چند رہنماؤں کو گرفتار کرنے کیلئے مضحکہ خیز مقدمات بنائے گئے۔
جب چیئرمین پی ٹی آئی اقتدار کے نشے میں سیاسی حریفوں کو جیلوں میں ڈال رہے تھے تو اہل دانش کا ایک طبقہ اس وقت کہہ رہا تھا کہ سیاسی انتقام میں بھی حدود کا خیال کیا جانا چاہئے، مگر اس طرف کوئی توجہ نہ دی گئی اور نتجیہ یہ نکلا کہ ان کی حکومت اپنی آئینی مدت بھی پوری نہ کر سکی۔
پی ٹی آئی کو اقتدار سے رخصت کرنے کے بعد خیال یہ تھا کہ اتحادی جماعتیں حالات سے کچھ سمجھ چکی ہوں گے اور جو غلطیاں ماضی میں دہرائی گئیں یا پی ٹی آئی نے کیں اس سے گریز کیا جائے گا مگر پی ڈی ایم کی جماعتیں بھی اسی ڈگر پر چل نکلیں اور جواز یہ پیش کیا گیا کہ پی ٹی آئی نے بھی انہیں انتقام کا نشانہ بنایا تھا تو کیا ضروری ہے کہ یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے؟
سیاستدانوں کی آپسی لڑائی اور سیاسی تجربات کا نقصان یہ ہوا کہ ملک ترقی کی راہ میں بہت پیچھے رہ گیا ہے کیونکہ جن سیاستدانوں نے ملک کو معاشی بحران سے باہر نکالنا تھا وہ آپس میں لڑنے میں مصروف رہے۔ بندہ پوچھے کہ جب ملک کے اندر جمہوری نظام موجود ہے تو پھر ہر کچھ عرصے کے بعد نیا تجربہ کیوں کیا جاتا ہے؟ جب پی ٹی آئی حکومت میں تھی تو سیاسی جماعتیں الزام عائد کر رہی تھیں کہ مقتدر قوتوں کے ساتھ مل کر حکومت چلائی جا رہی ہے اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد عمران خان نے خود بھی اس کا اعتراف کیا کہ اصل حکومت کسی اور کی تھی۔ جب اتحادی جماعتوں کی حکومت قائم ہوئی تو پی ٹی آئی نے یہی الزام عاید کرنا شروع کر دیا۔ مطلب یہ کہ ہم ایسی قوم سے تعلق ہیں جہاں پر ہر کچھ عرصہ کے بعد ایک ہی کہانی کو بغیر کسی تبدیلی کے دہرایا جاتا ہے۔
جب ہمارے اہل سیاست آپسی لڑائی میں مصروف عمل تھے تو خطے کے دیگر ممالک ترقی کی منازل طے کر رہے تھے۔ چاند پر پہنچنے کا بھارتی مشن چندریان تھری آج شام چھ بجے کے قریب یعنی 23 اگست 2023 کو چاند پر اترے گا، بھارتی مشن 22 اگست کو چاند پر پہنچ گیا تھا تاہم مشن محفظ جگہ کا تعین کر رہا ہے۔ ہمارے ہاں اور خطے کے دیگر ممالک میں ڈالر کی قیمت سے بھی ترقی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں؟ محض گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران ڈالر کی قیمت میں 140 روپے تک اضافہ ہوا ہے۔ یہ غیر معمولی اضافہ اس لئے ہے کہ ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں آج بھی ڈالر کی قیمت 80 روپے بھارتی روپے ہے۔80 روپے کہاں اور 300 سو روپے کہاں۔ پھر بھی حب الوطنی کے دعوے ۔
کبھی خیال آتا ہے کہ ارباب اختیار بحرانوں کو ختم ہی نہیں کرنا چاہتے ہیں، اسمبلیوں کی آئینی مدت پوری ہو چکی ہے ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ بروقت انتخابات کو یقینی بنایا جاتا مگر دور دور تک الیکشن کے آثار دکھائی نہیں دیتے ہیں، ڈیجیٹل مردم شماری کے مطابق حلقہ بندیوں کا مرحلہ مکمل ہونے کے بعد الیکشن کا اعلان کیا جائے گا حلقہ بندیوں کے بعد کب الیکشن ہوں گے کسی کو معلوم نہیں ہے۔ اسی کو ہیجانی کیفیت کہتے ہیں جس میں 24 کروڑ عوام مبتلا ہو چکے ہیں۔
آگے بڑھنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ تعمیری اختلافات کو فروغ دیا جائے، ریاستی معاملات کو بہرصورت جاری رہنا چاہئے۔ سیاسی جماعتیں اقتدار میں آنے کے بعد حب الوطنی اور غداری کے سرٹیفکیٹ جاری کریں تو اسے تسلیم نہ کیا جائے۔ سیاسی جماعتوں کو یہ باور کرا دیا جائے کہ انصاف کی فراہمی کیلئے عدالتیں موجود ہیں وہاں رجوع کیا جائے، چونکہ سیاسی جماعتیں جانتی ہیں کہ وہ اقتدار میں رہ کر اپنی مرضی کے فیصلے کرا سکتی ہیں اس لئے مخالفین پر دیدہ دلیری سے مقدمات قائم کئے جاتے ہیں۔
اتحادی جماعتوں کی گزشتہ حکومت نے بیرونی سرمایہ کاری کیلئے متعدد اقدامات اٹھائے ہیں، لیکن جب تک سیاسی انتقام کو ختم کر کے تعمیری اختلافات کو فروغ نہیں دیا جاتا کچھ بھی تبدیل نہیں ہو گا۔