ٹیکنالوجی کی جڑیں علم میں پیوست ہیں
ہر سال 24 جنوری کو منایا جانے والا عالمی یوم تعلیم، علم کے چراغ کو پوری دنیا میں پھیلانے کیلئے ایک عہد اور جذبے کی تجدید کا دن ہے۔ یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ تعلیم ہی وہ واحد قوت ہے جو انسانوں کی زندگیوں میں خوشحالی، مساوات اور ترقی کی روشنی لاتی ہے۔
تعلیم ایک ایسا سمندر ہے جس کی وسعتوں کا کوئی نہی ہے، نہایت ہی قیمتی موتی اس کی تہہ میں چھپے ہوئے ہیں۔ یہ علم کا خزانہ ہے جس کی کنجیوں سے ہی ہم مستقبل کے دروازے کھول سکتے ہیں۔ یہ ایک ایسا سفر ہے جو ہمیں اندھیروں سے نکال کر روشن منازل تک پہنچاتا ہے۔
لیکن یہ سفر آسان نہیں ہے۔ دنیا کے کئی حصوں میں آج بھی لاکھوں بچے ایسے ہیں جو تعلیم کے اس سفر سے محروم ہیں۔ غربت، ناانصافی اور جنگ ایسے دشمن ہیں جو بچوں کو اسکولوں کے دروازے تک پہنچنے سے روکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی یوم تعلیم کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے کیونکہ یہ دن ہمیں ان تمام رکاوٹوں کو دور کرنے اور ہر بچے تک تعلیم کی روشنی پہنچانے کا عزم دلاتا ہے۔
تعلیم ترقی کی راہ کی روشن شہادت ہے، اور پاکستان اس سفر میں ضرور گامزن ہے، مگر منزل کچھ دور ہی لگتی ہے۔ عالمی رپورٹس میں پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں شرح خواندگی اور تعلیمی معیار کم ہیں، مگر یہ تصویر کا صرف ایک رخ ہے۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ ہم کہاں سے آئے ہیں اور آج کہاں کھڑے ہیں۔
ماضی میں ہم تعلیمی انقلاب کی لہر پر سوار تھے۔ 1960 کی دہائی میں ایوب خان دور میں اصلاحات نے شرح خواندگی میں اضافہ کیا اور تعلیمی اداروں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ لیکن بعد کے سالوں میں سیاسی عدم استحکام، اقتصادی بدحالی اور سماجی الجھنوں نے ترقی کی رفتار کو سست کر دیا۔ ناقص منصوبہ بندی، فنڈز کی کمی، انتظامی مسائل اور قابل عمل پالیسیوں کی کمی جیسے چیلنجوں نے تعلیمی نظام کو کمزور کیا۔
یہاں یہ دیکھنا ضروری ہے کہ ہم صرف اعداد و شمار پر توجہ نہیں دے سکتے۔ پاکستان جیسے متنوع ملکی سطح پر تعلیم کے چیلنج بھی بڑھ جاتے ہیں۔ دیہی علاقوں میں سکولوں کا فقدان، بچیوں کی تعلیم میں خلیج، مدرسہ نظام کی ہم آہنگی کا مسئلہ اور مذہبی انتہا پسندی کے اثرات سے نمٹنا ایسے مسائل ہیں جن سے نمٹنا آسان نہیں ہے۔
لیکن، مایوس ہونے کی بھی ضرورت نہیں۔ پاکستان میں ایسے روشن پہلو بھی موجود ہیں جن پر فخر کیا جا سکتا ہے۔ ہنرمند نوجوان، باصلاحیت اساتذہ اور قابل ادارے مسلسل تعلیم کے چراغ کو جلائے رکھتے ہیں۔ ان عزم و ہمت والوں کی کہانیاں ہمیں بتاتی ہیں کہ پاکستان میں تبدیلی ممکن ہے۔
لیکن یہ کوششیں کافی نہیں ہیں۔ پاکستان کو کم شرح خواندگی، غیر معیاری نصاب، غیر تربیت یافتہ اساتذہ اور تعلیمی فنڈز کے ناقص استعمال جیسے مسائل سے نمٹنا ہوگا۔ جدید ٹیکنالوجی، ڈیجیٹل لرننگ پلیٹ فارمز، اور فنڈز میں شفافیت لانے جیسے اقدامات اہمیت کے حامل ہیں۔
تعلیم کے نظام کو مضبوط بنانے کی ذمہ داری نہ صرف حکومت بلکہ پورے معاشرے کی ہے۔ والدین کو بچوں کی تعلیم میں متحرک کردار ادا کرنا چاہیے، پرائیوٹ سیکٹر کو سرمایہ کاری کرنی چاہیے اور سماجی تنظیموں کو تعلیمی پروگرام چلانے چاہئیں۔
اس سفر میں سب سے اہم جزو عزم و ہمت ہے۔ ہمیں یہ یقین رکھنا چاہیے کہ تعلیم سے ہی خوشحالی، مساوات اور ترقی آتی ہے، اور اس یقین کے ساتھ قدم بڑھانے چاہئیں۔ پاکستان کی تعلیمی منزل دور ہے، مگر قدم ملا کر چلیں گے تو ایک دن ضرور پہنچیں گے۔
علم اور ٹیکنالوجی، دو ایسے اجاگر ستارے ہیں جو انسانیت کے آسمان کو منور کرتے ہیں۔ اگر ایک علم کی روشنی ہے تو دوسرا اس روشنی کو مادی شکل دینے کا فن۔ لیکن یہ دونوں کا رشتہ کیا ہے؟ کیا تعلیم ہی ٹیکنالوجی کی پیشرو ہے؟ اس سوال کا جواب اتنا سادہ نہیں جتنا لگتا ہے۔
ایک طرف، یہ کہنا درست ہے کہ ٹیکنالوجی کی جڑیں علم میں پیوست ہیں۔ ہر نئی ایجاد، خواہ وہ ہوائی جہاز ہو کہ کمپیوٹر، علم کی گہرائیوں سے نکل کر ہی بنتا ہے۔ اساتذہ کی محنت سے پڑھے ہوئے انجینئرز، سائنسدان اور محقق ہی وہ ہوتے ہیں جو نئی ٹیکنالوجی تخلیق کرتے ہیں۔ لہذا، یہاں تک بات ماننا آسان ہے کہ تعلیم ایک بنیادی ستون ہے جس پر ٹیکنالوجی کی عمارت کھڑی ہے۔
لیکن کہانی کا یہ صرف ایک رخ ہے۔ ٹیکنالوجی کی ترقی محض علمی تحقیق تک محدود نہیں رہتی۔ تاریخ گواہ ہے کہ کئی بار ٹیکنالوجی کی ضرورت نے خود علمی ترقی کو آگے بڑھایا ہے۔ نئے آلات کی ایجاد نے نئے سوالات جنم دیے، جن کی تلاش میں نئے علمی نظریات سامنے آئے۔ ٹیلی سکوپ کی ایجاد نے خلائی علوم کی راہیں کھولیں، جبکہ کمپیوٹر نے مصنوعی ذہانت اور ڈیٹا سائنس جیسے نئے شعبوں کو جنم دیا۔
یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ سائنسی علم صرف ایک قسم کی تعلیم نہیں ہے۔ ہنرمنٹ، فنکارانہ صلاحیتیں، اور تخلیقی سوچ بھی ترقی کا انجن ہیں۔ ایک خوبصورت گیت جو سماجی تبدیلی کا باعث بنے، یا ایک تخلیقی ڈیزائن جو مستقبل کے شہروں کا نقشہ کھینچے، وہ بھی ٹیکنالوجی کی ہی ایک شکل ہیں۔
لہذا، یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ تعلیم بلکہ سارا علم ہی ٹیکنالوجی کی پیشرو ہے، ایک غیرمکمل تصویر ہوگی۔ یہ دونوں ایک پیچیدہ رشتے میں بندھے ہوئے ہیں۔ علم ٹیکنالوجی کو سائنسی بنیاد عطا کرتا ہے جبکہ ٹیکنالوجی علمی جستجو کو نئے راستے فراہم کرتی ہے۔ دونوں مل کر انسانی ترقی کی گاڑی کو آگے بڑھاتے ہیں۔
ہمیں سب کو مل کر یہ کوشش کرنی چاہیے کہ تعلیم تک رسائی ہر بچے کا بنیادی حق بنے۔ حکومتوں کو چاہیے کہ وہ تعلیم کے شعبے پر خصوصی توجہ دیں اور ایسے نظام وضع کریں جن میں ہر بچے کو مفت اور معیاری تعلیم مل سکے۔
اس دن ہمیں نہ صرف ان بچوں کا خیال رکھنا چاہیے جو اسکول نہیں جا سکتے بلکہ ان تعلیم یافتہ افراد کا بھی جو علم کی مشعل کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ ہمیں اپنے اساتذہ، والدین اور تمام ان لوگوں کا شکریہ ادا کرنا چاہیے جو ہمیں علم کی روشنی عطا کر رہے ہیں۔
ہم عہد کریں کہ ہم تعلیم کے فروغ کیلئے اپنا کردار ادا کریں گے۔ چاہے وہ چند بچوں کو پڑھانا ہو، کسی اسکول کیلئے فنڈ اکٹھا کرنا ہو یا پھر تعلیم کے مسائل پر آواز بلند کرنا ہو۔ ہر چھوٹا قدم بھی اس سفر میں اہمیت رکھتا ہے۔