پچاس برس بعد دنیا ڈیجیٹل ہو گی؟

دنیا کو یاد ہوگا کہ سال1969ء میں عالمی سطح پر ثقافتوں اور سائنس و ٹیکنالوجی میں اہم پیشرفت سامنے آئی تھیں، اس سال 30 جنوری کو انگلش راک بینڈ ’’بیٹلس‘‘ نے اپنا آخری شو کیا تھا جب کہ 20 جنوری کو دنیا اُس وقت حیرت زدہ رہ گئی جب نیل آرمسٹرانگ اور ایڈون بز ایلڈرین نے چاند پر چلنے کا مظاہرہ کر کے تاریخ میں اپنے نام درج کرائے تھے۔ اس سے ایک ماہ سے بھی کم عرصے کے بعد موسیقی کے تقریباً پانچ لاکھ مداح نیویارک میں ووڈ سٹاک کے قریب ایک کیچڑ والے میدان جمع ہوئے تھے جسے امریکی میگزین’’ رولنگ اسٹون ‘‘ اُس دور تک کا سب سے بڑا ’’راک میلہ ‘‘ قرار دیتا ہے ۔1969ء کے جس واقعہ نے مستقبل کی نسلوں پر سب سے زیادہ اثرات مرتب کئے تھے، وہ 29 اکتوبر کو یونیورسٹی آف کیلی فورنیا، لاس اینجلس کے گریجویٹ طلباء کی ایک ٹیم نے پروفیسر لیونارڈ کلینروک کی سربراہی میں سٹین فورڈ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں کمپیوٹرز کو باہم منسلک کرکے ادا کیے تھے۔

یہ ایڈوانسڈ ریسرچ پروجیکٹس ایجنسی نیٹ ورک کا پہلا کمپیوٹر نیٹ ورک تھا۔کمپیوٹر اس نیٹ ورک کے قیام کو50 برس سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے اور ان 50 سالوں میں انٹرنیٹ چند آپس میں جڑے ہوئے کمپیوٹرز سے اب ایک ایسے عالمی نیٹ ورک میں تبدیل ہو چکا ہے جو دنیا کے تمام حصوں میں اربوں صارفین کو آپس میں جوڑ رہا ہے۔ ایلون یونیورسٹی کے امیجننگ دی انٹرنیٹ سینٹر سے وابستہ کیتھلین اسٹین بیری کے مطابق اگرچے انسانوں کے درمیان رابطے و تعاون کے حوالے سے انٹرنیٹ ایک وسیع تجربہ ثابت ہوا ہے، تاہم ماہرین کا خیال ہے کہ دور رس اصلاحات لا کے انٹرنیٹ کے مزید مؤثر استعمال کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔

بیشتر ماہرین کا خیال ہے کہ اگلے 50 سال میں ڈیجیٹل ترقی بہت سی مثبت تبدیلیاں لائے گی اور بڑی حد تک انسانی زندگیوں کو بدل دے گی ،تاہم ان کا یہ کہنا بھی ہے کہ اس کے فوائد صرف اس صورت میں حاصل ہوں گے اگر لوگ بہتر تعاون، سکیورٹی ، بنیادی حقوق اور ذریعہ معاش میں شفافیت کے لیے اصلاحات لائیں گے۔ امریکہ کے ایک تھنک ٹینک ’’ پیو ریسرچ سنٹر‘‘ اور ایلن یونیورسٹی کے امیجننگ دی انٹرنیٹ سنٹر نے ایک سروے کا انعقاد کیا تھا جس میں سینکڑوں کی تعداد میں ٹیکنالوجی ماہرین سے یہ سوال کیا گیا کہ اگلے 50 برسوں میں انٹرنیٹ میں آنے والی جدت کے انسانی زندگی پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ اِس سوال کے جواب میں 72 فیصد ماہرین کا کہنا تھا کہ یہ تبدیلی انسان کے لیے بہتر ثابت ہوگی، 25 فیصد ماہرین کی رائے تھی کہ اس تبدیلی کے اثرات منفی ہوں گے جب کہ تین فیصد ماہرین کے مطابق اس سے کوئی نمایاں تبدیلی نہیں آئے گی۔

اس سروے میں شامل ہونے والے پروفیسر لیونارڈ کلینروک کا کہنا تھا کہ انٹرنیٹ ایک وسیع عالمی نظام میں تبدیل ہو جائے گا، یہ ہر جگہ اور مستقل بنیادوں پر دستیاب ہو گا، یہ عالمی انفراسٹرکچر میں سرایت کر جائے گا اور بالکل ایسے پوشیدہ ہو گا جیسے بجلی موجود ہوتی ہے مگر اُس کی ہیت پوشیدہ ہوتی ہے۔پچاس سال بعد ہم تقریر، اشاروں، احساس، ہولوگرام اور ڈسپلے کے ذریعے بات چیت کرنے کے بھی قابل ہو جائیں گے۔ امید ہے کہ زندگی پرسکون ہو جائے گی اور زیادہ متوازن بھی ۔ جو جسمانی وڈیجیٹل شراکت فراہم کرے گی۔ اسکرینیں کافی حد تک کم ہو جائیں گی۔

امریکی کمپنی ’’ دی انٹرنیٹ کو آپریشن فار اسائنڈ نیمز اینڈ نمبرز‘‘ کی بانی چیئر ایستھر ڈائیسن کے مطابق انٹرنیٹ کی سہولت اس قدر مؤثر ثابت ہو رہی ہے کہ اس نے ہمیں اپنی بہت سی قلیل مدتی خواہشات کو فوری طور پر پورا کرنے کا موقع فراہم کردیا ہے۔ مستقبل میں اس کے بہتر استعمال کے لیے اب طویل غور و فکر کی ضرورت باقی ہے۔ امریکی فرم الٹی میٹر گروپ کے صنعتی تجزیہ کار اور ڈیٹا، تجزیات اور ڈیجیٹل حکمت عملی کے ماہر سوسن ایٹلنگر سمجھتے ہیں کہ 50 سالوں میں، موجودہ انٹرنیٹ سسٹم بھی بڑی حد تک متروک ہو جائے گا۔ یو آر ایلس، ایپس اور ویب سائٹس کی جگہ ڈیجیٹل تعاملات گفتگو، ہیپٹک (لمسیاتی حس سے متعلق) جیسی سہولت دستیاب ہو ں گی۔ طبعی اور ڈیجیٹل دنیا کے درمیان فرق بڑی حد تک ختم ہو جائے گا۔ اگلے 50 برس میں اس سے کہیں زیادہ ترقی دیکھنے کو ملے گی ۔ جس کا آج ہم تصور نہیں کر سکتے ہیں۔

مصنوعی (مشینی) ذہانت اور نیٹ ورکنگ میں پیشرفت کے باعث موسم اور نظام قدرت کو بڑے پیمانے پر سمجھنے کی انسانی صلاحیت بڑھ جائے گی۔ سنٹر فار ڈیجیٹل سوسائٹی اینڈ ڈیٹا اسٹڈیز یونیورسٹی آف ایریزونا کے محقق بیٹسی ولیمز کا کہنا تھا کہ رازداری کا عنصر زیادہ تر امیروں کے لیے ہو گا، جو انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والوں کو خدمات اور رازداری کی حفاظت کرنے والے اداروں کو علیحدہ نیٹ ورکس کے لیے اضافی ادائیگی کیاکریں گے۔ ہارورڈ یونیورسٹی کے برک مین کلین سینٹر فار انٹرنیٹ اینڈ سوسائٹی میں فیکلٹی فیلو جوڈتھ ڈوناتھ نے تبصرہ کیا کہ اب ایک ایسے مصنوعی دورکا تصور کیا جاسکتا ہے ، جو ہر ممکن حد تک متوازن ہوگا۔ یہ ایک خوشگوار دنیا ہوگی، ہماری خواہشات کو نئے سرے سے تعین کرنے کا موقع ملے گا اور ہمارے رویے تبدیل ہو جائیں گے۔

بین الاقوامی گروپ’’ ریلیشن شپ اکانومی ایکسپڈیشن‘‘ کے بانی جیری میکالسکی سمجھتے ہیں کہ نصف صدی ایک طویل وقت ہے اور اس میں بہت سی اہم تبدیلیاں ممکن نظر آرہی ہیں، دیکھا جائے تو اس وقت جو ملک ڈیجیٹل پلیٹ فارم استعمال کررہے ہیں وہ پرانی قومی ریاستوں کے مقابلے میں بڑے اور زیادہ طاقتور ہو جائیں گے ۔ اب ہر چیز کو جعلی طریقے سے بنانا آسان ہے لہذا ہر چیز میں شک کا عنصر موجود ہے۔اس لیے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے پائیدار اور بہتر طریقے سے استعمال کے لیے اقدامات کے ساتھ ہر شے کے اصل ہونے کے معیار بھی بنانے ہوں گے۔

یونیورسٹی آف ڈیلاویئر میں سکول آف پبلک پالیسی اینڈ ایڈمنسٹریشن کے پروفیسر جان میکنٹ کا کہنا ہے کہ ہر ٹیکنالوجی ایک اچھا تصور نہیں، ٹیکنالوجی میں ہر پیشرفت کو اس کے نتائج کی صورت میں دیکھنا چاہیے کیونکہ متوازن ٹیکنالوجی نے ہی انسانی ترقی کو ممکن بنایا ہے اور یہ سلسلہ آگے بھی جاری رہنا چاہیے، وہ کہتے ہیں کہ لوگ ٹیکنالوجی کا غلط استعمال کر سکتے ہیں اور یہ خطرناک بھی ثابت ہوسکتا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ آنے والے برسوں میں ڈیجیٹل زندگی ویسی ہی ہو گی جیسے لوگ اسے تشکیل دیں گے، چنانچہ بہتر مستقبل کے لیے انسانوں کو ٹیکنالوجی کے ساتھ اپنی شراکت داری کے بارے میں ذمہ دارانہ فیصلے کرنے ہوں گے۔ زیادہ تر غیر منظم انٹرنیٹ کا دور ختم ہو جائے گا۔ منتخب عہدیداران اور ٹیکنالوجی لیڈرز ریگولیٹری فریم ورک کے ساتھ آگے بڑھیں گے تاکہ عوامی فلاح کو یقینی بنایا جا سکے۔

50 سالوں میں انٹرنیٹ کا استعمال تقریباً اتنا ہی وسیع اور ضروری ہو گا جتنی کہ آکسیجن انسان کے لیے ضروری ہے۔ بلارکاوٹ ’’کنیکٹیویٹی‘‘ معمول بن جائے گا اور کچھ وقت کے لیے بھی انٹرنیٹ سے لاتعلق رہنا ناممکن ہوگا۔ انٹرنیٹ ٹیکنالوجی کی مدد سے لوگ طویل اور صحت مند زندگی بسر کرسکیں گے، سائنسی ترقی انسان اور مشین کے درمیان لکیر یعنی فاصلوں کو مٹاتی چلی جائے گی۔ مصنوعی ذہانت کے ’’ٹولز‘‘ غیر محفوظ اور جسمانی مشقت کو اپنے ذمے لے لیں گے، جس سے انسانوں کے لیے فرصت کے لمحات مزید بڑھ جائیں گے۔

ایک مکمل نیٹ ورک کی حامل دنیا میں فاصلوں، وقت اور زبان کی رکاوٹوں کے بغیر عالمی تعاون کو فروغ ملے گا اور تمام معاشروں کی ترقی کے مواقع بڑھ جائیں گے۔ مگر انٹرنیٹ تک وسیع تر رسائی سماجی اور سیاسی طاقت کے ڈھانچے میں مزید خلل کا باعث بھی بن سکتی ہے اور ممکنہ طور پر یہ عدم مساوات کو کم کرنے اور افراد کو بااختیار بنانے کا باعث بنے گی۔مستقبل میں ایک طاقتور اشرافیہ انٹرنیٹ کو کنٹرول کرے گی اور اسے مانیٹر کرنے کے ساتھ وہ ہیرا پھیری کے لیے استعمال بھی کرے گی۔

وہ اپنے مذموم مقاصد کو چھپانے کے لیے لوگوں کو ایسی تفریح کے مواقع فراہم کر ے گی تاکہ عوام مشغول رہیں اور خود کو مطمئن سمجھیں۔ ہائپر کنیکٹڈ یعنی ہر چیز اور ہر فرد کا باہم منسلک مستقبل ایسے تنہا صارفین پر مشتمل ہوگا جو دیرپا انسانی تعلقات بنانے اور برقرار رکھنے سے قاصر ہوگا۔ نجی رازداری ایک قدیم، فرسودہ بات تصور ہوگی ۔اہم بات یہ ہوگی کہ انسانیت کا مستقبل نظام قدرت کے مستقبل سے جڑا ہوا ہے یا نہیں۔ ماحولیاتی انحطاط کو کم کرنے کے لیے سخت اقدامات کے بغیر آئندہ پچاس سالوں میں انسانی زندگی کا وجود ہی سوالیہ نشان بھی بن سکتا ہے۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button