ریسرچ میں مسلمانوں کی خدمات
بیرون کاراڈی واکس کی مشہور کتاب اسلام کا ورثہ(The Legacy of Islam) 1931ء میں شائع ہوئی ۔ اس کتاب کا مصنف اگرچہ عرب مسلمانوں کے کارناموں کا اعتراف کرتا ہے۔ مگر اس کے نزدیک ان کی حیثیت اس کے سوا کچھ نہ تھی کہ وہ یونانیوں کے شاگرد تھے۔ برٹرینڈرسل نے اپنی کتاب ہسٹری آف ویسٹرن فلاسفی میں عربوں کو صرف ناقل (Transmitter)کا درجہ دیا ہے۔ جنہوں نے یونان کے علوم کو لے کر بذریعہ تراجم یورپ کی طرف منتقل کر دیا۔
مگر علمی اور تاریخی اعتبار سے یہ بات درست نہیں۔ یہ صحیح ہے کہ عربوں نے یونانی علوم کو پڑھا اور اس سے فائدہ اٹھایا مگر اس کے بعد جو چیز انہوں نے یورپ کی طرف منتقل کی وہ اس سے بہت زیادہ تھی جو انہیں یونانیوں سے ملی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ یونان کے پاس وہ چیز موجود ہی نہ تھی جو عربوں کے ذریعے یورپ کو پہنچی اور جو یورپ میں نشاۃ ثانیہ پیدا کرنے کا سبب بنی۔ اگر فی الواقع یونان کے پاس وہ چیز موجود ہوتی تو وہ بہت پہلے یورپ کو مل چکی ہوتی۔ ایسی حالت میں یورپ کو اپنی حیات نو کے لیے ایک ہزار سال انتظار نہ کرنا پڑتا۔
یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ قدیم یونان سے جو کچھ ترقی کی تھی، وہ آرٹ اور فلسفہ میں کی تھی۔ سائنس کے میدان میں ان کی ترقی اتنی کم ہے کہ وہ کسی شمار میں نہیں آتی۔ اس معاملہ میں واحد قابل ذکر استثناء ارشیدس کا ہے جس کو ۲۱۲ق م میں ایک رومی سپاہی نے عین اس وقت قتل کر دیا جب کہ وہ شہر کے باہر ریت پر جیومیٹری کے سوالات حل کر رہا تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ سائنسی غور و فکر اور سائنسی ترقی کے لیے ذہنی آزادی کا ماحول انتہائی ضروری ہے، اور یہ ماحول قدیم زمانہ کے دوسرے ملکوں کی طرح، یونان میں موجود نہ تھا۔ سقراط کو اس جرم میں زہر کا پیالہ پینا پڑا کہ وہ ایتھنز کے نوجوانوں میں آزادانہ غور و فکر کا مزاج بنا رہا تھا۔ پلو ٹارک کے بیان کے مطابق، اسپارٹا کے لوگ صرف عملی ضرورتوں کے لیے لکھنا اور پڑھنا سیکھتے تھے۔ ان کے یہاں دوسری تمام کتابوں اور اہلِ علم پر پابندی لگی ہوئی تھی۔ ایتھنز میں آرٹ اور فلسفہ کو ترقی حاصل ہوئی۔ مگر بہت سے آرٹسٹ اور فلسفی جلاوطن کر دیے تھے، قید خانہ میں ڈال دیے گئے ، پھانسی پر چڑھا دیے گئے ، یا وہ خوف سے بھاگ گئے۔ ان میں اسکائی لس، ایوریفائڈس، فدیاس ، سقراط اور ارسطو جیسے لوگ بھی شامل تھے۔
اسلام سے پہلے پوری معلوم تاریخ میں علمی آزادی کا وجود نہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ قدیم زمانہ میں سائنسی غور و فکر کی بعض انفرادی مثالیں ملتی ہیں۔ مگر یہ غور و فکر وقتی یا انفرادی واقعہ سے آگے نہ بڑھ سکا۔ ذہنی آزادی نہ ملنے کی وجہ سے ایسی ہر سوچ پیدا ہو کر ختم ہو جاتی رہی۔
اسلام نے پہلی بار انقلابی تبدیلی کی کہ مذہبی علم اور طبیعاتی علم کو ایک دوسرے سے الگ کر دیا۔ مذہبی علم کا ماخذ خدائی الہام قرار پایا جس کا مستند ایڈیشن ہمارے پاس قرآن کی صورت میں محفوظ ہے۔ مگر طبیعاتی علوم میں پوری آزادی دی گئی کہ آدمی ان میں آزادانہ تحقیق کرے اور آزادانہ طور پر نتائج تک پہنچ سکے۔
صحیح مسلم (جلد ۴) میں ایک باب کا عنوان ان الفاظ میں قائم کیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ شرعی طور پر کہا ہو اس کا ماننا لازم ہے۔ مگر معیشت دنیا کے بارے میں آپ کا قول اس سے مستثنیٰ ہے:
باب وجوب امتثال ماقالہ شرعاً دون کاذکرہ صلی اللہ علیہ وسلم من معایش الدنیاعلی سبیل الرأی۔
اس باب کے تحت امام مسلم نے یہ روایت نقل کی ہے کہ موسیٰ بن طلحہ اپنے باپ سے نقل کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایسے لوگوں پر گزرا جو کھجور کے درخت پر چڑھے ہوئے تھے ۔ آپ نے پوچھا کہ یہ لوگ کیا کر رہے ہیں۔ لوگوں نے بتایا کہ وہ تلقیح (Pollination)کا عمل کر رہے ہیں۔ یعنی مذکر کو مؤنث پر ما رہے ہیں تو اس سے وہ زرخیز ہوتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، میں گمان نہیں کرتا کہ اس سے کچھ فائدہ حاصل ہو گا۔ یہ بات لوگوں کو بتائی گئی تو انہوں نے تلقیح کا عمل چھوڑ دیا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات معلوم ہوئی تو آپ نے کہا: اگر اس سے نفع ہوتا ہو تو وہ ایسا کریں۔ کیوں کہ میں نے تو صرف ایک گمان کیا تھا ، تو تم میرے گمان کی پیروی نہ کرو ۔ مگر جب میں تم سے اللہ کی کوئی بات کہوں تو اس کو اختیار کر لو ۔ کیوں کہ میں اللہ عز وجل کے بارے میں کبھی جھوٹ نہیں کہتا۔
حضرت عائشہ، حضرت ثابت اور حضرت انس رضی اللہ عنہم اجمعین سے یہ روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک گروہ کے پاس سے گزرے جو تلقیح کا عمل کر رہے تھے۔ آپ نے فرمایا کہ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو زیادہ بہتر ہوتا۔ راوی کہتا ہے کہ اس کے بعد کھجور کی پیداوار بہت کم ہوئی ۔ آپ دوبارہ ان کے پاس سے گزرے اور پوچھا کہ تمہاری کھجوروں کا کیا ہوا۔ انہوں نے پورا قصہ بتایا۔ آپ نے فرمایا کہ تم اپنے طریقہ کے مطابق کرو، کیونکہ تم اپنی دنیا کے بارے میں زیادہ جانتے ہو۔ (انتم اعلم بامر دنیا کم)
اس حدیث کے مطابق ، اسلام میں دینی بحث کو سائنسی تحقیق سے الگ کر دیا گیا ہے۔ دینی بحث میں الہامی ہدایت کی کامل پابندی کرنی ہے۔ مگر سائنسی تحقیق کو انسانی تجربہ کی بنیاد پر چلانا ہے۔ یہ علم کی تاریخ میں بلاشبہ عظیم الشان انقلاب ہے۔