خود سازی کو چھوڑ کر تاریخ ساز انسان بنیں
آدمی دو قسم کے ہوتے ہیں۔ایک خود ساز اور دوسرے تاریخ ساز۔خود ساز آدمی کی توجہات کا مرکز اس کی اپنی ذات ہوتی ہے اور تاریخ سازآدمی کی توجہات کا مرکز وسیع تر انسانیت۔
خود ساز آدمی کی سوچ اس کی ذاتی مصلحتوں کے گرد بنتی ہے۔اس کے جذبات وہاں بھڑکتے ہیں جہاں اس کے ذاتی فائدہ کا کوئی معاملہ کا تعلق اس کے ذاتی فائدے سے نہ ہو وہاں اس کے جذبات میں کوئی گرمی پیدا نہیں ہوتی۔
خود ساز آدمی اپنے ذاتی نفع کے لئے ہر دوسری چیز کو قربان کر سکتا ہے، خواہ وہ کوئی اصول ہو یا کوئی قول و قرار،خواہ وہ کوئی اخلاقی تقاضا ہو یا کوئی انسانی تقاضا۔ وہ اپنی ذات کے لئے ہر دوسری چیز کو بھلا سکتا ہے،وہ اپنی خواہشات کے لئے ہر دوسرے تقاضے کو نظر انداز کر سکتا ہے۔
تاریخ ساز انسان کا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہوتا ہے، وہ اپنی ذات کے خول سے نکل آتا ہے وہ بلند تر مقصد کے لیے جیتا ہے، وہ اصولوں کو اہمیت دیتا ہے نہ کہ مفادات کو۔وہ مقصد کے لئے تڑپنے والا انسان ہوتا ہے نہ کہ مفاد کیلئے تڑپنے والا انسان۔ وہ اپنے آپ میں رہتے ہوئے اپنے آپ سے جدا ہو جاتا ہے۔
تاریخ ساز انسان بننے کی واحد شرط خود سازی کو چھوڑنا ہے۔آدمی جب خود کو فنا کرتا ہے اسی وقت وہ اس قابل بنتا ہے کہ وہ تاریخ ساز انسانوں کی فہرست میں شامل ہو سکے،اس کے دل کو جھٹکے لگیں پھر بھی وہ اس کو سہہ لے۔اس کے مفاد کا گھروندا ٹوٹ رہا ہو پھر بھی وہ اس کو ٹوٹنے دے۔اس کی بڑائی اس کی آنکھوں کے سامنے مٹائی جائے پھر بھی وہ اس پر کوئی ردِ عمل ظاہر نہ کرے۔
تاریخ سازی کے لئے وہ افراد درکار ہیں جو خود سازی کی خواہشات کو اپنے ہاتھ سے ذبح کرنے پر راضی ہو جائیں،جو صرف اپنے فرائض کو یاد رکھیں اور اپنے حقوق سے دستبرداری پر خود اپنے ہاتھ سے دستخط کریں۔