کیا آپ بھی فضول سوالات کرنے کی عادت میں مبتلا ہیں؟
ایک باشعورا نسان غیر ضروری امور میں مداخلت نہیں کرتا،مگر کتنے لوگ ایسے ہیں جو فضول سوالات سے دوسرے کو پریشان کر دیتے ہیں،کسی نے آپ کی گھڑی دیکھی تو فضول سوالات کرنا شروع کر دیئے۔
پہلا سوال:کتنے کی خریدی ہے؟
آپ کہتے ہیں:کسی نے ہدیہ پیش کیا ہے…..
پھر سوال کرتا ہے:اچھا یہ ہدیہ،کس نے دیا ہے؟
آپ کہتے ہیں: کسی دوست نے…..
پھر سوال کرتا ہے:کس دوست نے؟ سکول میں یا محلہ میں؟ آپ کہتے ہیں: نہیں سکول کے دوست نے….پھر سوال کرتا ہے: کس خوشی میں ہدیہ پیش کیا ہے؟
آپ کہتے ہیں: سکول سے کالج منتقل ہونے کی خوشی میں
پھر سوال کرتا ہے:کالج میں قبول ہونے کی یا….؟
ایسے فضول سوالات کرتا ہے اب سچ بتائو ایسے آدمی سے آپ کا دل نہیں کرے گا کہ چلا کر کہہ دو:تو کیوں دخل اندازی کر رہا ہے،سب سے زیادہ شرمندگی تو اس وقت ہوتی ہے کہ ایسا آدمی بڑی مجلس میں بیٹھ کر ایسے سوالات سب کے سامنے کرنے لگے،میں ایک مجلس میں بیٹھا تھا اور میرے ساتھ ایک شخص تھا اس کے موبائل پر فون آیا،فون اٹھا کر کہا جی! آگے اس کی بیوی تھی مجھے آواز آ رہی تھی اس کی بیوی نے کہا: اے گدھے کہاں ہو؟ اب آدمی مجلس میں لوگوں کے سامنے کیا کہتا بہرحال اس نے کہا:اللہ تمہاری سلامتی رکھے،لگتا ہے کہ اس آدمی نے اپنی بیوی کے ساتھ کہیں جانے کا وعدہ کیا تھا، بیوی نے غصہ سے کہا:اللہ تمہاری سلامتی نہ رکھے تم اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر خوش ہو اور میں ادھر تمہارا انتظارکر رہی ہوں۔
بھینسا کہیں کا…اب آدمی سب کے سامنے کیا کہتا؟ اس کا چہرہ شرمندگی سے سرخ ہو گیا آدمی نے جواب دیا:اللہ تمہیں خوش رکھے میں عشاء کے فوراً بعد پہنچ جائوں گا میں نے محسوس کیا کہ آدمی کے جوابات اس کی بیوی کی باتوں کے غیر مطابق تھے، تو مجھے پتہ چلا کہ وہ اس لئے اس طریقہ سے باتیں کر رہا تھا تاکہ کسی کو محسوس نہ ہو،فون ختم ہو گیا ،میں لوگوں کی طرف دیکھتا رہا اور میرے ذہن میں خیال پیدا ہوا کہ کسی نے اس سے اگر سوال کیا: کون تھا؟ کیا چاہتا تھا؟ کیوں تمہارا چہرہ بدل گیا؟ تو پتہ نہیں پھر اس پر کیا گزرتی لیکن اللہ نے اس آدمی پر شفقت کی کہ کسی نے دخل اندازی نہیں کی۔
ایسے ہی آپ کسی بیمار کی عیادت کے لئے گئے اور آپ نے اس سے بیماری کا حال پوچھا؟ بیمار نے کہا: الحمدللہ تھوڑی سی بیماری تھی کوئی اتنا مسئلہ نہیں،یا ایسے الفاظ میں جواب دیا جس میں کوئی واضح بات نہ تھی،تو آپ کو یہ نہیں چاہئے کہ اس بات کی کھوج نکالنا شروع کر دیں یعنی کون سی بیماری تھی ذرا واضح کرو،آپ کی بات میں نہیں سمجھا…..یا ایسے کوئی سوالات…..
عجیب!کیوں آپ اس کو شرمندہ کرتے ہو؟ آپ نے حدیث مبارک نہیں سنی کہ سب سے اچھا مسلمان وہ ہے جو غیر مطلبی بات نہیں کرتا یعنی کیا آپ اس بات کے منتظر ہیں کہ ضرور بیمار آپ کو صراحت سے کہہ دے کہ مجھے بواسیر ہے یا گہرا زخم ہے….یا….یا….ایک بار جب بیمار نے مختصر بات کر دی ہے تو بات کو لمبا کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ میرا یہ مقصد نہیں کہ بالکل بیمار سے بیماری کا نہ پوچھیں بلکہ مقصد یہ ہے کہ بات کو لمبا نہ کریں جس سے اس کو شرمندگی یا تنگی ہو۔
مثلاً آپ کسی مجلس میں بیٹھ کر کسی بچہ سے لوگوں کے سامنے سوالات شروع کر دیں اور اونچی آواز سے کہیں،بتائو پاس ہو گئے ہو؟…بچہ کہتا ہے:جی…پھر آپ اس سے پوچھنے لگ جائیں:کتنے نمبروں میں پاس ہوئے؟….کیوں اتنے نمبروں میں پاس ہوئے؟….کیوں؟….کیوں؟…. ارے بچہ کو سب کے سامنے شرمندہ کرنے کی کیا ضرورت ہے؟….دھیان کرنا کسی بات کو اپنے حجم سے نہ بڑھانا۔