تعلیم گاہیں ہوس کے پجاریوں کے نرغے میں
ریاست بہاولپور کا شمار برصغیر کی دوسری بڑی اسلامی ریاست کے طور پر ہوتا تھا۔ اس اسلامی ریاست کے آخری فرماں روا نواب سر صادق محمد خان عباسی پنجم تھے، جو اپنی علم دوستی اور علم پروری میں نہایت معروف تھے۔ ان کی علم دوستی اور علم پروری کا ثبوت پاکستان کی ایک عظیم اور چارٹرڈ یونیورسٹی کا درجہ حاصل کرنے والی اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور ہے، جس کی بنیاد انہوں نے اسلام کی قدیم ترین یونیورسٹی جامعۃ الازہر کی طرز پر 1925ء میں رکھی۔
اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کا نام سنتے ہی فوراََ مولانا شمس الحق افغانی رحمتہ اللہ علیہ کا نام بھی ذہن میں آ جاتا ہے، جو دیوبند کے ایک عظیم فاضل اور علوم قران میں بڑے ماہر مانے جاتے تھے۔ آپ 1963ء سے 1975ء تک 12 سال اس یونیورسٹی میں شیخ التفسیر رہے۔
دستیاب معلومات کے مطابق یونیورسٹی میں اس وقت بہاولپور اور دیگر اضلاع کے طلبہ و طالبات زیر تعلیم ہیں، جن کی تعداد تقریبا 17 ہزار ہے۔ لیکن اپنے ماتھے پر اسلامیہ کا روشن نام سجائے ملک کی عظیم اور صف اول میں شمار کی جانے والی یہ یونیورسٹی بدقسمتی سے حالیہ دنوں شرمناک اور دل خراش خبروں کی زد میں ہے۔ ایسی لرزہ خیز داستانیں منظر عام پر آرہی ہیں، جنہیں پڑھ اور سن کر ہر سنجیدہ اور سمجھدار انسان چونک جاتا ہے۔
پولیس اور ذرائع ابلاغ کے مطابق اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کی سیکیورٹی اور امن و امان کی دیکھ بھال جیسے ذمہ دار اور حساس منصب پر فائز چیف سیکیورٹی آفیسر سے دوران ڈرائیونگ مبینہ طور پر 10 گرام کرسٹل آئس، جنسی اشتعال انگیز ادویات، عملہ اور طالبات کی 400 کے لگ بھگ فحش ویڈیوز اور تقریبا ساڑھے پانچ ہزار نازیبا تصاویر برآمد ہوئیں۔ ملزم مذکور تاحال پولیس کی تحویل میں زیر تفتیش ہے، دوران تفتیش ملزم کے انکشافات کی روشنی میں ایک دوسرے سینئر آفیسر کو بھی تحویل میں لے کر شامل تفتیش کر دیا گیا ہے۔
ایسا پہلی بار نہیں ہوا، بلکہ اس سے قبل بھی ملک کی دیگر یونیورسٹیوں کے بارے میں بھی اس نوع کی افسوسناک خبریں میڈیا پر شائع ہوتی رہیں۔ یونیورسٹی انتظامیہ اور حکام بالا اپنی ساکھ بحال رکھنے کی غرض سے وقتی نوٹس لے کر معاملات کو دائیں بائیں کرتے رہے ہیں۔ تاہم یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ کئی سنگین اور گھناونے جرائم پر مشتمل ایسا سکینڈل پہلی بار منظر عام پر آیا ہے۔یہاں کئی سنجیدہ سوالات پیدا ہو رہے ہیں۔ مثلاً: کیا اس واقعے کو معمول کا واقعہ کہہ کر نظر انداز کیا جا سکتا ہے؟ کیا اس نوعیت کے واقعات ہماری اجلی اقدار کو داغدار نہیں بنا رہے؟
کیا قوم کی بیٹیوں کی آبرو اسی طرح سرِ بازار نیلام ہوتی رہے گی؟ کیا کوئی والد تعلیمی اداروں کے ایسے حیا باختہ ماحول کے ہوتے ہوئے اپنی جواں عمر بیٹی کو بھیجنا گوارا کرے گا؟ کیا تعلیم اور ڈگری کے نام پر شرم و حیا کا جنازہ نکالنے کی اجازت دی جا سکتی ہے؟ کیا مہذب معاشروں میں ایسے واقعات کا خیال بھی لایا جا سکتا ہے؟ کیا یونیورسٹی انتظامیہ کی ذمہ داریاں محض اپنی ساکھ ہی بحال رکھنا ہے؟ کیا نسلِ نو کو تعلیم کے حصول کے لیے صاف ستھرا ماحول فراہم کرنا حکومت اور انتظامیہ کی ذمہ داریاں نہیں ہیں؟
اگر اس طرح کا کوئی معمولی سا واقعہ بھی کسی دینی مدرسے میں ہو جاتا تو کیا ذرائع ابلاغ اسی طرح خاموشی کا مظاہرہ کرتا؟ کیا ایسے گھناؤنے کردار کے حامل افراد کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کر کے قرار واقعی سزا دی گئی؟ کیا ایسے بھیڑیے نما انسانوں کی ہوس سے تعلیمی اداروں کو پاک نہیں کیا جا سکتا؟ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان شرحِ خواندگی کے حوالے سے پہلے ہی بہت پیچھے ہے، نیز شدید خدشہ ہے کہ اس قسم کے سنگین واقعات تعلیمی نظام کو مزید متاثر کریں گے۔
اس لیے متعلقہ حکام سے گزارش ہے کہ اس معاملے کی وسیع بنیادوں پر تحقیق کے بعد ملوث عناصر کو قرار واقعی سزا دی جائے، تاکہ ملک کو تعلیمی لحاظ سے ناقابل تلافی نقصان سے بچایا جا سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ تعلیمی اداروں کے لیے ایسا جامع ضابطۂ اخلاق بنایا جائے، جس کے باعث ایسے واقعات کی نہ صرف روک تھام ہو سکے، بلکہ ملوث کرداروں کو نشانِ عبرت بھی بنایا جائے۔