احسان کریں پھر کسی کے شکریہ کا انتظار نہ کریں
اللہ تعالیٰ نے بندوں کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا۔ انہیں روزی دی کہ اس کا شکر ادا کریں لیکن اکثر نے عبادت کی تو غیر اللہ کی، شکر کیا تو غیر اللہ کا۔ مطلب یہ ہے کہ انکار، زیادتی، جفا اور کفرانِ نعمت انسانی فطرت پر غالب ہے۔ لہٰذا آ پ کو بالکل حیرانی نہ ہو اگر لوگ آپ کے احسان کو فراموش کردیں‘ بھلائی کا انکار کردیں‘ حسن سلوک کو بھول جائیں بلکہ آپ سے دشمنی شروع کردیں اور احسان کے بدلے بغض و حسد رکھیں۔
’’وہ ناراض نہ ہوئے مگر اس بات پر کہ اللہ و رسولؐ نے اپنے فضل سے انہیں بے نیاز کردیا تھا۔ ‘‘
دنیا کا کھلا دفتر سامنے ہے‘ اسے پڑھیے، وہ تمام کا تمام اس باپ کا قصہ ہے جس نے اپنے بیٹے کو پالا پوسا، کھلایا پلایا، تعلیم و تربیت دی، اسے سلانے کے لیے خود جاگا‘ اسے کھلانے کے لیے خود بھوکا رہا‘ اس کے آرام کے لیے خود تھکا مگر جب بیٹا جوان ہو گیا ‘ توانا ہوا تو باپ کے لیے کتنا وفادار ثابت ہوا۔ استہزاء، نفرت ‘ نافرمانی کسی چیز میں بھی تو کسر نہیں چھوڑی‘ عذاب بن کر رہ گیا۔ لہٰذا وہ لوگ جن کے احسانات کم ظرفوں نے بھلا دیے ہوں وہ مضطرب نہ ہوں، انہیں مژدہ ہے کہ ایسی ہستی کے انعام کے مستحق بنیں جس کے خزانے کبھی خالی نہیں ہوتے۔
ہمارا یہ مطلب نہیں یہ احسان و سلوک کرنا چھوڑ دیں بلکہ یہ ہے کہ آپ ’’نیکی کردریا میں ڈال‘‘ کے عادی ہو جائیں‘ کفرانِ نعمت پر رنجیدہ و مایوس نہ ہوں‘ بھلائی کے کام کریں، اللہ کی رضامندی کیلئے ایسا کریں گے تو ہر حال میں کامیاب ہوں گے۔ آپ کو کسی ناشکری سے کوئی نقصان نہ ہوگا۔ آپ احسان کرنے والے ہوں گے۔ آپ کا ہاتھ اونچا ہوگا جو نچلے ہاتھ سے بہتر ہوتا ہے۔
’’ہم تمہیں اللہ کے لیے کھلاتے ہیں تم سے کسی بدلے اور شکریے کی تمنا ہمیں نہیں۔‘‘ (۷۶:۹)
عام لوگوں میں انکار و ناشکری کی جبلت کو بہت سے باشعور لوگ بھی بھول جاتے ہیں گویا انہوں نے ناشکروں کے سلسلے میں وحی الٰہی کی یہ بات نہ سنی:
’’اور جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو ہم کو پکارتا ہے‘ لیٹے بھی‘ بیٹھے بھی‘ کھڑے بھی پھر جب ہم اس کی تکلیف اس سے ہٹا دیتے ہیں تو ایسا ہو جاتا ہے کہ گویا اس نے اپنی تکلیف کے لیے جو اسے پہنچی تھی کبھی ہمیں پکارا ہی نہ تھا‘ ان حد سے گزرنے والوں کے اعمال کو ان کے لیے اسی طرح خوشنما بنا دیا گیا ہے۔ (۱۰:۱۲)