سامان کی فہرست نے راز فاش کر دیا

ایک عجیب واقعہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں پیش آیا کہ تمیم بن اوس داری اور عدی بن بداء جو اُس وقت دونوں نصرانی تھے بغرض تجارت مدینہ سے شام گئے اور ان کے ساتھ بدیل مولیٰ عمرو بن عاص بھی تھے جو مسلمان تھے۔ بدیل وہاں جا کر بیمار ہو گئے۔ اس لیے انہوں نے اسی بیماری کی حالت میں اپنے کل سامان کی جو اُن کے پاس تھا ایک فہرست مرتب کی اور اس کو اپنے مال و اسباب میں رکھ دیا اور اپنے دونوں نصرانی ساتھیوں سے اس کا ذکر نہ کیا۔ جب اُن کا مرض سخت ہو گیا اور مرنے لگے تو انہوں نے اپنا مال تمیم اور عدی کے سپرد کیا اور یہ وصیت کی کہ جب تم مدینہ واپس جاؤ تو میرا یہ سامان میرے وارثوں کو پہنچا دینا۔ پھر بدیل کا انتقال ہو گیا اور وہیں دفن ہو گئے۔

بعد ازاں وہ دونوں نصرانی اپنے کام سے فارغ ہو کر مدینہ آ گئے۔ اس مال میں ایک چاندی کا پیالہ بھی تھا جس پر سونے کا خول چڑھا ہوا تھا اور اس میں تین سو مثقال چاندی تھی۔ ان نصرانیوں نے وہ پیالہ تو مال میں سے غائب کر لیا اور باقی سب مال لا کر بدیل کے وارثوں کو دے دیا۔ وارثوں نے جب اس مال کی دیکھ بھال کی تو اس میں سے ایک فہرست برآمد ہوئی جس میں ہر چیز کی تفصیل تھی۔

جب اس فہرست کے مطابق انہوں نے مال کی جانچ پڑتال کی تو اس میں سے ان کو وہ چاندی کا پیالہ نہ ملا۔ وہ لوگ تمیم اور عدی کے پاس گئے اور ان سے پوچھا کہ کیا بدیل نے بیماری کی حالت میں اپنا کچھ مال فروخت کر دیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ نہیں۔ وارثوں نے کہا کہ ہمیں اس سامان میں سے ایک فہرست ملی ہے جس میں اس کے سب مال و اسباب کی تفصیل ہے۔ اس فہرست کے مطابق ہم کو ایک چاندی کا پیالہ نہیں ملتا جس پر سونے کا خول چڑھا ہوا تھا اور اس میں تین سو مثقال چاندی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ہم کو کچھ معلوم نہیں۔ جو چیز اس نے ہمارے سپرد کی وہ ہم نے تمہارے سپرد کر دی۔

وارثوں نے یہ معاملہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا۔ مگر وہ دونوں اپنے انکار پر قائم رہے۔ چونکہ مدعی فریق یعنی ورثاء کے پاس خیانت کے کوئی گواہ نہ تھے اس لیے طے یہ پایا کہ تمیم اور عدی قسم اٹھائیں کہ ہم نے اس مال میں کوئی خیانت نہیں کی۔ کیونکہ وہ دونوں نصرانی اس مقدمہ میں مدعیٰ علیہ تھے اس لیے ان سے قسمیں لی گئیں، انہوں نے جھوٹی قسمیں کھا لیں اور قصہ ختم ہو گیا۔

کچھ دنوں بعد وہ پیالہ کہیں سے پکڑا گیا، جس کے پاس سے پیالہ ملا اس سے دریافت کیا گیا کہ تیرے پاس یہ پیالہ کہاں سے آیا۔ اس نے کہا کہ میں نے یہ پیالہ تمیم اور عدی سے خریدا ہے۔ اب دوبارہ یہ مقدمہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں پیش ہوا ۔ اس وقت یہ دونوں نصرانی خریداری کے مدعی بن گئے اور کہنے لگے کہ ہم نے یہ پیالہ اس کے مالک سے یعنی اس میت سے خرید لیا تھا لیکن چونکہ اس کے پاس خریداری کے گواہ نہیں تھے اور ورثاء خریداری کے منکر تھے اس لیے آپ نے اُن کی بجائے وارثوں سے قسمیں لیں۔

اس پر بدیل کے دو قریبی وارث کھڑے ہو گئے اور عصر کے بعد انہوں نے یہ قسم کھائی کہ وہ دونوں شخص جھوٹے اور خائن ہیں اور ہماری شہادت ان کی شہادت سے زیادہ معتبر ہے۔ تب اس پیالہ کی وہ قیمت جس پر انہوں نے وہ فروخت کیا تھا (یعنی ایک ہزار درہم) لے کر وارثوں کو دلائی گئی اور قصہ ختم ہو گیا۔ اس واقعہ کے بعد جب سیدنا تمیم داری اسلام لائے تو کہاکرتے تھے کہ بے شک اللہ اور اس کا رسول سچا ہے۔ میں نے پیالہ لیا تھا اب میں اپنے اس گناہ سے توبہ کرتا ہوں اور اللہ سے معافی مانگتا ہوں۔

اس بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں:’’اے مسلمانو! تمہارے درمیان اس وقت کی گواہی جب کہ تم میں سے کسی کو موت آ پہنچے یعنی وصیت کا وقت آ پہنچے اور مال ورثاء کے سپرد کرنے کی ضرورت ہو تو گواہی کا انصاف ایسے دو شخص ہیں جو ثقہ اور معتبر ہوں اور تم میں سے ہوں یعنی مسلمان ہوں۔‘‘ (سورۃ المائدہ ‘ آیت ۱۰۸۔۱۰۶)

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button