جب باپ ہی اولاد کی جان کا دشمن بن جائے

میانوالی میں سفاک اور درندہ صفت باپ کے ہاتھوں نومولود بیٹی کے بہیمانہ قتل پر ہر آنکھ اشکبار ہے، سات روز کی معصوم بچی کو اس لئے موت کے گھاٹ اتار دیا کیونکہ باپ کو غصہ تھا کہ بیٹی کیوں پیدا ہوئی ہے، کہا جا رہا ہے کہ شاہزیب نامی شخص نے سات روز کی بچی پر گولی چلائی، کیا اس سے بڑی درندگی بھی ہو سکتی ہے کتنے شادی شدہ جوڑے ہیں جو اولاد کیلئے ترس رہے ہیں ان کی خواہش ہے کہ اللہ انہیں بیٹے یا بیٹی میں سے جس سے چاہے نواز دے۔

ایک باپ اولاد کیلئے شجر سایہ دار ہوتا ہے جو خود کڑی دھوپ اور موسم کی سختی برداشت کرتا ہے مگر اپنے بچوں کو تکلیف میں نہیں دیکھ سکتا، اللہ تعالی نے باپ کے سینے میں ایسا دل رکھا ہے جو اپنے پیٹ سے پہلے بچوں کا سوچتا ہے۔ بچوں کی فرمائشیں پوری کرنے کیلئے وہ اپنی صحت کا خیال تک نہیں رکھتا ہے، لیکن جب باپ ہی بچوں کے لئے خطرے کی علامت بن جائے تو پھر بچوں کو تحفظ کون فراہم کرے گا؟

میانوالی میں پیش آنے والے ناخوشگوار واقعے کی ہر سطح پر مذمت کی جا رہی ہے۔ یقیناً یہ ایسا دلخراش واقعہ ہے، جس کے تناظر میں ہر شخص نے اپنا ردعمل دیا ہے، ہر دل زخمی ہوا ہے، ہر دماغ پر چوٹ لگی ہے، ہر زندہ دل کا سینہ چھلنی ہوا ہے، نظام عدل کے در و دیوار لرز گئے ہیں، انتظامیہ اور پولیس نے غیر معمولی پھرتیاں دکھائی ہیں، انتظامیہ اور عدلیہ سے اس بے رحم اور سنگ دل باپ کو قرار واقعی سزا دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے، ہر دل سلگ رہا ہے اور یقیناً پاکستان کے ہر شہری کو صدمہ پہنچا ہے۔

بلاشبہ ایسی شقاوت و سفاکیت پر اس نوع کے تاثرات اور ردعمل سامنے آتے رہتے ہیں اور آنے بھی چاہئے۔ تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایسے واقعات کی روک تھام اور انسداد کے لیے مستقل بنیادوں پر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔
اس ضمن میں چند تجاویز و گذارشات پیش خدمت ہیں۔

مسجد کے ادارے میں خدمات سر انجام دینے والے پیش امام اور خطبائے کرام کے پاس منبر و محراب کی صورت میں ایک مؤثر پلیٹ فارم ہے، یہ پلیٹ فارم استعمال کرتے ہوئے اپنے اپنے حلقہ کی دینی نہج پر تربیت کی جائے اور عوام میں دینی شعور اجاگر کرنے کا اس سے بہتر وسیلہ نہیں ہو سکتا۔

حکومت کو ملک کے اندر ایسے قوانین کا اجراء کرنا چاہیے، جن کی بدولت ایسے مجرموں کو کڑی سزائیں دی جائیں اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے ان سزاؤں کے نفاذ کی بھرپور انداز سے تشہیر کی جائے۔

سکول و کالج کے اساتذۂ کرام تعلیم کے مقاصد پیش نظر رکھتے ہوئے طلبہ میں مثبت رویوں کے فروغ اور کردار کی تعمیر پر توجہ دیں نیز کردار سازی کریں۔

اگر مذکورہ بالا تینوں طبقے اپنے اپنے حصے کی شمع روشن کریں، تو ایسے واقعات کا مستقل بنیادوں پر انسداد ممکن ہے، ورنہ وقتی جذباتیت اور اشتعال ہمیں ذہنی تلذذ اور آسودگی تو فراہم کر سکتا ہے، ایسے واقعات کی روک تھام نہیں اور پھر اس نوعیت کے واقعات ہمیں بے حس بنانے کے لیے کافی ہیں۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button