خود غرض بہو اور ماں کا نافرمان بیٹا

اس کے انتہائی مالدار والد کا انتقال ہو چکا تھا۔ انہوں نے اپنے پیچھے خاصی دولت چھوڑی تھی۔ والد کے انتقال کے بعد یہ اکلوتا بیٹا اپنی ماں کا خدمت گزار تھا۔ باپ کے ترکہ میں سے وہ حتی المقدور اپنی ماں کی خدمت پر خرچ کرتا اور اس کی دیکھ بھال پر خاصی رقم خرچ کرتا تھا۔

ایک دن ایسا بھی آیا جب وہ شادی کے بندھن میں بندھ گیا۔ اب وہ شادی شدہ نوجوان تھا۔ اس کے گھر میں ماں کے ساتھ اب ایک بیوی بھی جلوہ افروز ہو چکی تھی۔ اس کی بیوی خوبصورت تو ضرور تھی مگر دوسروں کے حق میں اس کا رویہ بہت برا تھا۔ وہ خود غرضی اور مفاد پرستی کی تمام سرحدیں پار کر چکی تھی۔ اپنے مفاد اور مطلب کے مقابلے میں اسے ہر چیز ہیچ اور ناقابلِ وجہ نظر آتی تھی۔ اسی وجہ سے اس نے اپنی ساس سے بڑا ناروا سلوک کیا اور اُس کا جینا دو بھر کر دیا۔ وہ اپنی ساس کے ساتھ زبان درازی سے بھی باز نہیں آتی تھی۔

اللہ کا کرنا یہ ہوا کہ اُس کی ساس کو مرگی کی بیماری لاحق ہو گئی۔ بس اب کیا تھا، وہ بیچاری بیٹے کے ہوتے ہوئے بھی اپنی بہو کی بدتمیزی، بے رخی اور بے حسی کا شکار ہو گئی۔ بوڑھی ساس کا وجود بہو کے لیے عذاب بن چکا تھا۔ یہ سلسلہ چلتا رہا، کشمکش بڑھتی گئی اور ماحول کی تلخی میں اضافہ ہوتا رہا۔ ایک وقت آیا کہ بہو کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ ساس کے ساتھ رہنا اب اس کی برداشت سے باہر تھا۔ ایک دن اس نے اپنے شوہر سے صاف صاف کہہ دیا:

’’تمہیں اب دو باتوں میں سے ایک کا اختیار ہے: اپنی ماں کے ساتھ رہو یا میرے ساتھ۔ اب میں تمہاری ماں کے ساتھ نہیں رہ سکتی۔‘‘
بیٹے نے ازحد کوشش کی کہ اپنی بیوی کو کسی طرح صبر و رضا پر قائل کر سکے، مگر لاکھ سمجھانے بجھاے کے باوجود اس کی رفیقہ حیات اُس کی بات ماننے کو تیار نہ تھی۔ اب اس کے سامنے دو میں سے ایک راستہ تھا، ماں کی جدائی یا بیوی سے علیحدگی۔
یہ ایسا پُرآشوب اور مشکل وقت تھا کہ اس کے لیے کوئی فیصلہ کرنا دشوار ہو گیا۔ اس نے کافی دیر غور کیا۔ آخر کار اس نتیجے پر پہنچا کہ اسے ماں کے ساتھ نہیں بلکہ بیوی کے ساتھ ہی رہنا چاہیے۔

اب کیا تھا‘ اس پر بیوی کی محبت کا بھوت سوار ہو گیا۔ شیطان نے اس کے فیصلہ کو اُس کی نگاہ میں خوشنما بنا دیا۔ اور وہ اپنی اُس ماں کو جدا کرنے پر راضی ہو گیا جس نے نجانے کیسی کیسی تکلیفیں اُٹھا کر اس کی پرورش کی تھی۔

وہ شدید سردی کی رات تھی ۔ اس نے اپنے فیصلے کی تکمیل کے لیے ماں کو چھت پر چڑھایا اور پھر چھت سے نیچے دھکا دے دیا۔ جی ہاں، چھت سے نیچے… اپنی ہی ماں کو اوپر سے نیچے پھینک دیا۔ بے چاری بوڑھی ماں اپنی زندگی کی آخری سانسوں کے ساتھ زمین پر پڑی کراہ رہی تھی۔ اپنے پروردگار سے اپنے ہی لختِ جگر کی شقی القلبی کی شکایت کر رہی تھی۔ جس نے اسے انتہائی بے دردی سے چھت سے اُٹھا کر نیچے پھینک دیا تھا۔

مجرمین اور منافقین کی یہ عادت ہوا کرتی ہے کہ اپنے کالے کرتوتوں کو نیکی کا نقاب ڈال کر پیش کرتے ہیں۔ اُس بدبخت بیٹے نے بھی ایسا ہی کیا۔ ماں کی تجہیز و تدفین کے بعد اس نے مجلسِ تعزیت منعقد کی تاکہ لوگ اس سے ہمدردی کے لیے آئیں۔ اس سے تعزیت کریں اور اس کو دعائیں دیں۔ مگر وہ ظالم اس بات سے بے خبر تھا کہ وہ قادر مطلق اللہ رب العالمین اُس کے گھناؤنے کرتوت سے بخوبی واقف ہے جسے اونگھ آتی ہے نہ نیند، جو دلوں میں چھپے ہوئے بھید بھی جانتا ہے۔

دن گزرتے گئے ۔ راتیں ڈھلتی رہیں۔ ظالم بیٹا زندگی کی رعنائیوں میں ڈوبتا چلا گیا۔ وہ اللہ کی مار سے بے خبر تھا ۔ وہ اس بات سے بے خوف ہو چکا تھا کہ اُسے اس کی سفاکی سزا ملنے والی ہے۔ بھلا اللہ تعالیٰ کی مار دنیا کے مجرمین سے کیسے ٹل سکتی ہے؟اس کے دربار میں انصاف ضرور ملتا ہے، چاہے فیصلے کے نفاذ میں کتنا ہی وقت لگ جائے۔ کیونکہ اللہ کا فیصلہ اور انصاف اپنے وقت پر ہی ہوتا ہے۔

آخرکار اللہ کی مار کا وقت آن پہنچا۔ اُس ظالم بیٹے کو بھی اچانک وہی بیماری لاحق ہو گئی جس بیماری سے اس کی ماں دوچار تھی۔ اس کے جنون اور مرگی کے دوروں سے اس کی بیوی پریشان ہو گئی۔ اب بیماری لاحق ہونے کے بعد بیوی کا اپنے شوہر کے ساتھ وہی رویہ تھا جو اُس کا ماں کے ساتھ ہوا کرتا تھا۔ اب وہ ظالم بیٹا اپنی پیاری اور چہیتی بیوی کی بے رُخی کا شکار ہو چکا تھا جس کی خاطر اُس نے اپنی ماں کو چھت سے دھکا دے کر ہلاک کر دیا تھا۔

وہ ایک سرد رات تھا جب وہ عالمِ جنون میں گھر کی چھت پر چڑھ گیا۔ مگر اس بار وہ کسی کے سہارے چھت پر نہیں چڑھا تھا بلکہ خود ہی ہمت کرکے اوپر گیا تھا۔ اب وہ چھت کے اسی حصے پر پہنچا جہاں سے اس نے اپنی ماں کو دھکا دے کر نیچے پھینکا تھا۔ اُس نے یکدم چھت سے نیچے چھلانگ لگا دی اور چند ہی لمحوں بعد اُسے اپنے کالے کرتوتوں کا پورا پورا بدلہ مل چکا تھا۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button