منٹوں میں کیس کا فیصلہ ہو گیا
ہمارے ہاں عدالتوں میں سالوں کیس چلتے ہیں لیکن اس کا فیصلہ نہیں ہو پاتا ہے، شواہد ناکافی ہونے کی بنیاد پر لاکھوں کیسز ریکارڈ کا حصہ بن چکے ہیں مگر ایسے ججز کی بھی کمی نہیں ہے جو اپنی حاضر دماغی کی وجہ سے ناکافی شواہد کے باوجود مجرموں کو پکڑ لیتے تھے۔
ایک تاجر کا مال چوری ہوگیا۔ لوگوں نے شک کی بنیاد پر دو آدمیوں کو پکڑ لیا اور انہیں قاضی کی خدمت میں لے گئے۔ انہوں نے قاضی کو بتایا کہ ہمیں ان دونوں آدمیوں پر شک ہے ‘ البتہ ہم یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ ان میں سے اصل مجرم کون ہے؟
اب عدالت ہی فیصلہ کرے کہ کون مجرم ہے۔
قاضی نے لوگوں کو حکم دیا کہ آپ لوگ تھوڑا سا انتظار کریں‘ مجھے پیاس لگی ہے ‘ میں پہلے پانی پی لوں پھر فیصلہ کروں گا۔ پھر قاضی نے اپنے خادم کو پانی لانے کا حکم دیا۔ خادم نے حکم کی تعمیل کی اور ایک نہایت خوبصورت اور نفیس شیشے کے پیالے میں پانی حاضر کردیا۔ قاضی نے پیالہ اٹھایا اور پانی پینے لگا۔ اچانک قاضی نے شیشے کا پیالہ ہاتھ سے چھوڑ دیا۔ پیالہ زمین پر گرتے ہی چکنا چور ہو گیا۔ پیالہ ٹوٹنے سے ایک چھناکا سا ہوا جس سے لوگ گھبرا گئے کہ اچانک یہ کیا ہوگیا؟ ابھی لوگ آنکھیں پھاڑے یہ منظر دیکھ ہی رہے تھے کہ قاضی نے ان دونوں آدمیوں میں سے ایک کا گریبان پکڑ کر زور سے جھنجھوڑا اور باآواز بلند پکارا: تو ہی چور ہے! تو ہی چور ہے۔
ادھر وہ بار بار انکار کر رہا تھا کہ جناب نہیں‘ میں نے تو چوری نہیں کی ہے۔ مگر قاضی تھا کہ اس کا گریبان پکڑ کر زور زور سے جھنجھوڑ رہا تھا کہ تم نے ہی چوری کی ہے۔
تھوڑی سی تگ و دو کے بعد اس شخص نے اپنے جرم کا اعتراف کر لیا کہ واقعی میں نے ہی چوری کی ہے۔ اب لوگ قاضی سے پوچھنے لگے کہ آپ نے تو چور پکڑ لیا ‘لیکن ہمیں بھی بتائیں کہ آپ کو معلوم کیسے ہوا ‘ جب کہ آپ کے پاس ثبوت تو تھا نہیں؟
قاضی نے کہا کہ اصل میں مجھے پیاس نہیں تھی۔ میں جانتا ہوں کہ چوروں کے دل بہت مضبوط ہوتے ہیں۔ میں نے پانی کا پیالہ جان بوجھ کر منگوایا ۔ میں تم دونوں کے چہروں کی طرف غور سے دیکھ رہا تھا۔ جب میں نے پیالہ گرایا تو اس کے کرچی کرچی ہونے کی آواز آئی۔ اس آواز سے تیرے ساتھی سمیت سب لوگ پریشان ہوئے اور سناٹے میں آ گئے کہ یہ کیا ہو گیا؟ مگر تیری حالت اس کے بالکل برعکس تھی ‘ تیرے چہرے پر کسی خوف یا پریشانی کے آثار نہیں تھے۔ چور ‘ ڈاکو بڑے بڑے حادثات سے نہیں گھبراتے ‘ چہ جائیکہ ایک پیالہ ٹوٹنے سے ان پر گھبراہٹ طاری ہو جائے۔ مگر ایک عام شہری ذرا سے واقعے سے بھی خاصا متاثر ہوتا ہے۔ چنانچہ تیرا دوسرا ساتھی پیالہ ٹوٹنے کے چھناکے سے لرز اٹھا۔ اس سے میں نے پہچان لیا کہ تو ہی اصل مجرم ہے اور اب سزا تیرے مقدر میں ہے۔