عدالت کی بجائے سوشل میڈیا سے مدد مانگنے کارجحان
روزانہ درجنوں ویڈیوز نظروں سے گزرتی ہیں جن میں لوگ سوشل میڈیا صارفین سے اپیل کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ ان کے پیغام کو آگے شیئر کریں تاکہ ان کی شنوائی ہو سکے، کوئی اپنے ساتھ ہوئی زیادتی بارے بتا رہا ہوتا ہے تو کوئی جائیداد میں ہونے والی ناانصافی کو لے کر پریشان دکھائی دیتا ہے، کئی لوگ تو وزیراعظم، آرمی چیف اور چیف جسٹس کو مخاطب کرتے ہوئے داد رسی کی اپیل کر رہے ہوتے ہوں، تاہم بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی آواز اعلیٰ ایوانوں تک پہنچتی ہے۔ ہزاروں لوگوں کی آواز دیگر مسائل کی گرد تلے دب جاتی ہے۔
جن معاشروں میں لوگ متعلقہ فورم سے رجوع کر کے انصاف طلب کرنے کی بجائے دیگر ذرائع کا سہارا لینے لگیں تو سمجھ لینا چاہئے کہ ان معاشروں میں انصاف کا حصول آسان نہیں رہا ہے، ہونا تو یہ چاہئے کہ جس شخص کے ساتھ زیادتی ہو اور جب وہ انصاف کیلئے عدالت سے رجوع کرے تو اسے فوری اور سستا انصاف اس کی دہلیز پر میسر ہو، ریاست ایسے لوگوں کی داد رسی کیلئے حرکت میں آئے مگر پاکستان جیسے معاشروں میں غریب کیلئے انصاف کا حصول آسان نہیں رہا ہے۔
لوگ انصاف کے حصول کیلئے تمام آپشن بروئے کار لا چکے ہوتے ہیں اور انصاف کے حصول کیلئے انہیں مزید رشوت دینی پڑتی ہے، پولیس اور وکلا کی طرف سے جب مسلسل دھتکارا جاتا ہے تو لوگ آخری امید کے طور پر میڈیا سے رجوع کرتے ہیں چونکہ ہر خبر میڈیا پر بھی جگہ نہیں بنا پاتی ہے تو مجبوراً وہ سوشل میڈیا کا آپشن اختیار کرتے ہیں اور اپنے تئیں یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا پیغام حکام بالا تک پہنچ گیا ہے۔
لوگوں کا سوشل میڈیا کو استعمال کر کے انصاف طلب کرنا ہمارے نظام انصاف پر سوالیہ نشان ہے، ریاست اور عدلیہ کو اس طرف توجہ دینی چاہئے اور عوام کو بتایا جانا چاہئے ریاست عوام کے مسائل سے غافل نہیں ہے ، عوام کو انصاف فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے اور ریاست عوام کو سستا انصاف فراہم کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھے گی۔ محض یہ اعلان نہ کیا جائے بلکہ طور پر معلوم ہو کہ ریاست شہریوں کو انصاف فراہم کرنے میں پوری کوشش کر رہی ہے۔