تکلیف دہ حالات میں کیا کریں؟
علامہ ابن جوزی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں:
تمام موجودات میں سب سے مشکل چیز صبر ہے جو کبھی محبوب و پسندیدہ چیزوں کے چھوٹنے پر کرنا پڑتا ہے اور کبھی ناپسندیدہ اور تکلیف دہ حالات کے پیش آنے پر‘ خصوصاً جب کہ تکلیف دہ حالات کا زمانہ طویل ہو جائے اور کشادگی و فراخی سے ناامیدی ہونے لگے۔
ایسے وقت میں مصیبت زدہ کو ایسے توشہ کی ضرورت ہے جس سے اس کا سفر قطع ہو سکے اور اس توشہ کی مختلف صورتیں ہیں۔
ایک تو یہ کہ مصیبت کی مقدار کے متعلق سوچے کہ اس کا اور زیادہ ہونا بھی ممکن تھا۔
ایک یہ کہ اپنی حالت کو دیکھے کہ اس کے پاس مصیبت سے بڑی نعمتیں موجود ہیں مثلاً کسی کا ایک بیٹا مر گیا لیکن دوسرا اس سے عزیز بیٹا موجود ہے۔
ایک یہ کہ دنیا میں اس مصیبت کا بدلہ ملنے کی امید رکھے۔
ایک یہ آخرت میں اس پر اجر ملنے کو سوچے۔
ایک یہ کہ ایسے حالات پر‘ جن پر عوام مدح و تعریف کرتے ہیں۔ ان کی مدح و توصیف کا تصور کرکے لذت حاصل کرے اور حق تعالیٰ کی طرف سے اجر ملنے کے تصور سے لطف انداز ہو۔
ایک یہ بھی ہے کہ سوچے کہ ہائے واویلاکرنا کچھ مفید نہیں ہوتا بلکہ اس سے آدمی مزید رسوا ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اور بہت سی چیزیں ہیں جن کو عقل و فہم غلط بتلاتے ہیں۔ صبر کے راستے میں ان تصورات کے علاوہ کوئی اور توشہ کام نہیں آ سکتا۔ لہذا صابر کو چاہیے کہ اپنے آپ کو ان میں مشغول کرے ‘ ان کے ذریعہ اپنی آزمائش کی گھڑیاں پوری کرے اور صبح صبح منزل پر پہنچ جائے۔