دوست کی چوری سنگین جرم

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک فقیر کو کوئی ضرورت پیش آئی اس نے مجبور ہوکر اپنے دوست کے گھر سے اس کی دڑی چوری کرکے فروخت کر ڈالی۔ اس چوری کی خبر حاکم وقت کو ہوگئی ، اسے گرفتار کرلیا گیا اور پھر حاکم نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دے دیا۔ گودڑی والے نے اس کی سفارش کی کہ میں اسے معاف کرتا ہوں اس پر قاضی نے کہا تیری سفارش سے میں شرعی حد نہیں چھوڑوں گا۔
پھر گوڈری والے نے کہا جو کچھ آپ نے فرمایا ہے ٹھیک ہے مگر وقف مال سے اگر کوئی شخص چور ی کرلے گا تو چور کا ہاتھ نہیں کٹتا ہے چونکہ فقیر کسی چیز کا مالک نہیں ہوتا ہے اور جو فقراء کے پاس ہوتا ہے وہ حاجت مندوں پر وقف ہے اس پر حاکم نے اس فقیر کو چھوڑ دیا لیکن ملامت کرنے لگا اے چوری کرنے والے ساری دنیا تجھ پر تنگہو گئی تھی جو تو نے دوست کے گھر سے چوری کی۔
اس پر اس نے حاکم سے کہا: عالی جاہ! آپ نے نہیں سنا کہ لوگوں نے کہا دوستوں کے گھر میں جھاڑو دے لے مگر دشمن کادرواہ نہ کھٹکھٹا۔ عقل مندوں نے کہا ہے کہ جب تو کسی مصیبت کے ہاتھوں تنگ حال ہو جائے تو نہ گھبرا اور نہ عاجز ہو بلکہ تو ایسے حال میں دشمنوں کی کھال اور دوستوں کے تن سے پوشاک اتارلے ، مگر عاجز نہ ہو۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button