رنج و غم میں دوسروں کے ساتھ احسان کریں
خیر بھلائی اور معروف کا نتیجہ اچھا ہوتا ہے‘ لوگوں پر احسان کرنے والا سب سے پہلے خود اس احسان سے مستفید ہوتا ہے‘ اس کے دل ‘ اخلاق اور ضمیر کو سکون و طمانیت ‘ انشراح اور انبساط محسوس ہوتا ہے۔ لہٰذا جب کوئی رنج و غم کی بات پیش آئے تو دوسروں کے ساتھ کوئی نیکی کردیں‘ کوئی احسان کردیں‘ آپ کو سکون و اطمینان حاصل ہوگا۔ کسی محروم کو دیں‘ کسی مظلوم کی مدد کریں‘ کسی کو مصیبت سے نکال دیں‘ کسی بھوکے کو کھانا کھلا دیں ‘ کسی مریض کی عیادت کریں‘ خوشی اور خوش بختی آپ پر چھا جائے گی ‘ خیر کا کام ایک خوشبو کی مانند ہے‘ اس کا لانے والا‘ بیچنے والا اور خریدار سب اس سے مستفید ہوتے ہیں۔ نفسیاتی بھلائیاں وہ بابرکت جڑی بوٹیاں ہیں جو نیکوں کے دواخانہ میں استعمال کی جاتی ہیں۔ حسنِ اخلاق کے بھوکوں پر مسکراہٹیں لٹانا اخلاقیات میں صدقہ جاریہ شمار ہوتا ہے کہ اپنے بھائی سے خندہ پیشانی سے ملنا بھی صدقہ ہے‘ چہرہ کی اداسی و تاریکی دوسرے کے خلاف اعلان جنگ کرتی ہے جس کے نتائج کا علم علام الغیوب ہی کو ہے۔ ایک طوائف نے پیاس سے مر رہے کتے کو پانی کا ایک گھونٹ پلا دیا اور جنت کی مستحق بن گئی کیونکہ مالک دو جہاں غفور و رحیم بھی ہے، وہ محسن بھی ہے اور احسان سے محبت رکھتا ہے‘ وہ غنی و حمید ہے۔ لہٰذا ایسے لوگوں کو جنہیں بدبختی‘ بے چینی اور خوف نے جکڑ رکھا ہو نیکی اور بھلائی کے باغ کی طرف آنا چاہیے۔ دوسروں کی مدد ‘ غمگساری‘ اعانت اور خدمت کرنی چاہیے، انہیں خوش بختی پورے طور پر مل جائے گی۔ ’’وہ کسی کے ساتھ جو بھی احسان کرتا ہے اپنے رب کی خوشنودی کے لیے ہی کرتا ہے جو یقینا اس سے خوش ہوگا۔‘‘