ملازمہ کے ساتھ بہیمانہ سلوک کا عبرتناک انجام
مصر کی ایک خاتون لکھتی ہیں کہ انہیں گھریلو کام کاج کے لیے ایک نوکرانی کی ضرورت تھی ۔ ایک عاجز سا مزارعہ اپنی بیٹی کو لے آیا ‘ میرا خاوند اُس سے بڑے مکتبرانہ لہجے میںبات کر رہا تھا۔ خیر بات چیت طے ہو گئے ‘ لڑکی بہت ڈری سہمی ہوئی تھی۔ جب اُسے پتا چلا کہ اُس کا باپ اُسے یہاں چھوڑ کر جا رہا ہے تو وہ بہت روئی ‘ باپ کے ساتھ چمٹ گئی اور اُسے خدا کا واسطہ دیا کہ اُسے یہاں چھوڑ کر نہ جائے۔ لیکن غربت اور تنگدستی کا مارا باپ اُسے طفل تسلیاں دے کر چلا گیا کہ کم از کم اُس کی ملازمت سے اُنہیں پیٹ بھر کھانے کو تو ملے گا۔ وہ چھوٹی سی لڑکی صبح سویرے اُٹھ کر اپنی مالکن کے ساتھ ناشتے میں مدد کرتی ‘ پھر بچوں کے سکول بیگ اُٹھا کر اُنہیں سکول بس میں بٹھاتی۔ اُسے جو کھانا ملتا وہ روکھی سوکھی روٹی ہوتی اور اس میں گھی نام کی چیز نہ ہوتی تھی ‘ خاندان کا کوئی فرد اس سے ایک لقمہ تک نہ لے سکتا تھا جو ملازمہ کو کھانے کو ملتا تھا۔ لیکن وہ بے چاری اُسے کھا کر صبر شکر کرتی۔ سارا دن اُسے کبھی گھر کی مالکن‘ کبھی اُس کا خاوند اور کبھی اُن کے بگڑے بچے مختلف کاموں کے لیے آواز دیتے رہتے اور وہ سارے کام نمٹاتی ۔ گھر کی صفائی ‘ برتن دھونا اور دکان سے سودا سلف لانا بھی اُسی کی ذمہ داریوں میں شامل تھا۔
بگڑے ہوئے بچے سکول سے واپس آ کر یونیفارم ‘ کاپیاں کتابیں اور دوسری چیزیں ادھر اُدھر پھینکتے ‘ وہ سب چیزیں اُٹھا کر سنبھال کر اُن کی جگہ پر رکھتی۔ اگر بچوں کی کوئی چیز نہ ملتی تو وہ اُسے زدوکوب کرتے ‘ لیکن والدین کے ذہن میںلمحہ بھر خیال نہ آتا کہ وہ اپنے بچوں کی کیسی تربیت کر رہے ہیں۔
اس گمبھیر صورتحال کے باوجود وہ چھوٹی سی لڑکی انتہائی ایماندار ‘ صاف ستھری ‘ خیر خواہ اور چھوٹی چھوٹی رعایتوں پر خوش ہونے والی تھی۔ وہ اکثر اوقات گھریلو کام سرانجام دیتے ہوئے گنگناتی رہتی اور اُس کے غمگین اشعار میں اپنے گائوں ‘ والدین اور بہن بھائیوں سے جدائی کی المناک داستان ہوتی۔ بعض اوقات معمولی سی غلطی کی صورت میں اُسے گھر کے مالک کی طرف سے تشدد کا نشانہ بھی بنایا جاتا‘ لیکن وہ چھوٹی سی لڑکی یہ ظلم وستم خاموشی اور صبر سے برداشت کرتی۔ اس سارے عرصے کے دوران لڑکی کا باپ صرف ایک بار اُسے ملنے آیا تھا اور وہ ہر ماہ ایک عزیز کے ذریعے بیٹی کی تنخواہ منگوا لیتا تھا۔ لڑکی اپنی بے بسی پر چھپ کر روتی بھی لیکن مالکان کے خوف سے اُن کے سامنے آنے پر بالکل نارمل ہو جاتی۔ گھر کے مالکان کے ظلم و جبر سے تنگ کرآ کر ایک نوجوان کے ساتھ غائب ہو گئی ‘ لیکن آجر چونکہ فوجی افسر تھا اس لیے اُس نے لڑکی کو ایک ہفتے کے اندر برآمد کرا لیا اور واپسی پر غیر انسانی تشدد سے اُس کا استقبال کیا گیا۔ بیٹی نے باپ کو روکنے کی کوشش کی تو بیٹی پر بھی تھپڑوں کی بارش کر دی۔ وہ واپس ذلت آمیز زندگی میں لوٹ آئی تھی۔ آہستہ آہستہ وہ بیمار ہو گئی‘ اُس کے ہاتھ سے برتن گر کر ٹوٹنے لگے‘ چیک اپ کروانے پر ڈاکٹروں نے بتایا کہ اس کی نظر انتہائی کمزور ہو چکی ہے اور یہ مکمل نابینا ہو سکتی ہے‘ لیکن اس کے باوجود گھر کے مالکان کو رحم نہ آیا اور سارے کام اُسی سے کروائے جاتے تھے۔ وہ تقریباً نابینا ہو چکی تھی اورمالکان اُس سے چھٹکارا حاصل کرنے کے خواہش مند تھے ‘ ایک دن وہ گھر سے گئی تو واپس نہیں آئی ‘ مالکان نے بھی شکر کیا اور اُسے ڈھونڈنے میں کوئی دلچسپی نہیں ظاہر کی۔
مالک بھی اس دوران ملازمت سے ریٹائر ہو گیا اور اُس نے گھر والوں کا ناک میں دم کر دیا۔ بیٹا بھی یونیورسٹی تعلیم سے فارغ ہو کر اعلیٰ عہدے پر فائز ہو گیا اور پھر اپنی پسند سے ایک کلاس فیلو سے شادی کر لی۔ جلد ہی بچے کی پیدائش پر گھر میں خوشی کے شادیانے بج اُٹھے۔ لیکن یہ خوشی اُس وقت غم میں بدل گئی جب پتہ چلا کہ بچہ پیدائشی طور پر نابینا ہے۔ چند ماہ بعد مجبوراً بچے کو نابینا بچوں کی نگہداشت کے ادارے میں داخل کرانا پڑا۔ اس کے بعد بہو نے دوبارہ ماں بننے سے توبہ کر لی لیکن خاوند اور ساس سسر کے اصرار پر دوبارہ ایک بیٹی کی ماں بنی اور ٹیسٹ سے یہ بھی تسلی ہو گئی کہ بچی بالکل نارمل ہے ‘ لیکن چھ سات ماہ بعد محسوس ہواکہ بچی ایک جانب دیکھتی رہتی ہے۔ ڈاکٹر سے چیک اپ کروانے پر پتا چلا کہ بچی کی نظر کمزور ہو رہی ہے اور کچھ عرصے بعد یہ بھی نابینا ہو جائے گی۔ یہ خاندان کیلئے ایک اور بہت بڑا جھٹکا تھا۔ ایسے میں خاتون خانہ کو خیال آیا کہ کہیں یہ ہمارے کالے کرتوتوں اور مظالم کی سزا تو نہیں جو ہم نے اہانت‘ سب و شتم‘ زدوکوب ‘ طعنے ‘ دھکے ‘ ٹھڈوں اور الیکٹرک شاکس کی صورت میں اُس معصوم اور صابر خادمہ پرکیے۔ اُس کی آنکھ لگتی تو خواب میں بھی وہی بھولی بھالی صورت دکھائی دیتی اور اُس کے ذہن سے یہ بات چپک گئی ہم اُس وقت تک اللہ کی پکڑ سے نہیں بچ سکتے جب تک وہ اُس مسکین لڑکی سے معافی نہیں مانگ لیتے ‘ اُسے راضی نہیں کر لیتے‘ اپنی بد اعمالیوں کی تلافی نہیں کر لیتے اور وہ انہیں دل سے معاف نہیںکر دیتی۔ چنانچہ خاتون خانہ نے اُ س کی تلاش شروع کی‘ وہ پاگلوں کی طرف لوگوں سے پوچھتی پھرتی کہ شاید کہیں سے اُس کا سراغ مل جائے ۔ بالآخر اُس کا سراغ مل گیا ‘ وہ ایک مسجد میں خادمہ کے طور پر کام کر رہی تھے۔ خاتون اُس کے پاس گئی‘ اس سے اپنے رویے کی معافی مانگی اور درخواست کی کہ وہ زندگی کے باقی ایام اُن کے ساتھ گزارے۔ چنانچہ اُس خاتون کو واپس گھر لایا گیا ‘ گھر آکر اُس خاتون خانہ کی بیٹی جو اس کی واحد ہمدرد اور دوست تھی کی آواز سنی تو خوشی سے نہال ہو گئی۔ اب گھر میں تین نابینا افراد تھے ۔ ایک سابقہ خادمہ ‘ خاتون کا پوتا اور پوتی اور سب کی دیکھ بھال کی ذمہ داری خاتون پر تھی۔ وہ پراُمید تھی کہ اس طرح وہ کسی حد تک اپنے گزشتہ سنگدلانہ رویہ کی تلافی کر کے اللہ تعالیٰ کی مغفرت کی حقدار بن سکے گی۔