مذہبی گھرانے کی لڑکی نے کیسے انگریزی سیکھی؟

ایک خاتون نے انگریزی پڑھی۔ ان کے والد مولوی تھے۔ ان کے گھر پر انگریزی کا ماحول نہ تھا۔ چنانچہ ایم اے انگلش انہوں نے بمشکل تھرڈ نمبروں سے پاس کیا۔ ان کو شوق تھا کہ ان کو انگریزی لکھنی آجائے یہ کام ایک اچھے استاد کے بغیر نہیں ہو سکتا تھا، لیکن ان کے گھر کے حالات اس کی اجازت نہیں دیتے تھے کہ وہ کوئی استاد رکھیں اور اس کی مدد سے اپنے اندر انگریزی لکھنے کی صلاحیت پیدا کریں۔

مگر جہاں تمام راستے بند ہوتے ہیں وہاں بھی ایک راستہ آدمی کے لئے کھلا ہوتا ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ آدمی کے اندر طلب ہو اور وہ اپنے مقصد کے حصول میں اپنی پوری طاقت لگا دے۔ خاتون نے استاد کے مسئلہ کا ایک نہایت کامیاب حل تلاش کر لیا۔ انہوں نے لندن کی چھپی ہوئی ایک کتاب پڑھی۔ اس میں انگریز مصنف نے بیرونی ملکوں کے انگریزی کے طالب علموں کو یہ مشورہ دیا تھا کہ وہ انگریزی لکھنے کی مشق اس طرح کریں کہ کسی اہل زبان کی لکھی ہوئی کتاب لے لیں۔

اس کے بعد روزانہ اس سے چند صفحات لے کر پہلے اس کا اپنی زبان میں ترجمہ کریں، پھر کتاب بند کر کے الگ رکھ دیں اور اپنے ترجمہ کو بطور خود انگریزی میں منتقل کریں۔ جب ایسا کر لیں تو اس کے بعد دوبارہ کتاب کھولیں اور اس کی چھپی ہوئی عبارت سے اپنے انگریزی ترجمہ کا مقابلہ کریں۔ جہاں نظر آئے کہ انہوں نے کوئی غلطی کی ہے یا طریق اظہار میں کوتاہی ہوئی ہے، اس کو اچھی طرح ذہن کی گرفت میں لائیں اور کتاب کی روشنی میں خود ہی اپنے مضمون کی اصلاح کریں۔

خاتون نے اس بات کو پکڑ لیا۔ اب وہ روزانہ اس پر عمل کرنے لگیں۔ انگریزی اخبار یا رسالہ یا کسی کتاب سے انگریزی کا کوئی مضمون لے کر وہ روزانہ اس کا اردو ترجمہ کرتیں اور پھر اپنے اردو ترجمہ کو دوبارہ انگریزی میں منتقل کرتیں اور پھر اپنے انگریز ی ترجمہ کو اصل انگریزی عبارت سے ملا کر دیکھتیں کہ کہاں کہاں فرق ہے۔ کہاں کہاں ان سے کوئی کمی ہوئی ہے۔

اس طرح وہ روزانہ تقریباً دوسال تک کرتی رہیں۔ اس کے بعد ان کی انگریزی اتنی اچھی ہوگئی کہ وہ انگریزی میں مضامین لکھنے لگیں۔ ان کے مضامین انگریزی جرائد میں چھپنے لگے۔ ان کے بھائی نے ایکسپورٹ کا ایک کام شروع کیا جس میں انگریزی خط و کتابت کی کافی ضرورت پڑتی تھی۔ خاتون نے انگریزی خط وکتابت کا پورا کام سنبھال لیا اور اس کو کامیابی کے ساتھ انجام دیا۔

مذکورہ خاتون نے جو تجربہ انگریزی زبان میں کیا وہی تجربہ دوسری زبانوں میں بھی کیا جا سکتا ہے۔ ہماری دنیا کی ایک عجیب خصوصیت یہ ہے کہ اس میں کسی کامیابی تک پہنچنے کے بہت سے ممکن طریقے ہوتے ہیں۔ کچھ دروازے اگر آدمی کے اوپر بند ہوجائیں تب بھی کچھ دوسرے دروازے کھلے ہوتے ہیں جن میں داخل ہو کر وہ اپنی منزل تک پہنچ سکتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ موجودہ دنیا میں کسی شخص کی ناکامی کا سبب ہمیشہ پست ہمتی ہوتا ہے نہ کہ اس کے لئے مواقع کا نہ ہوتا۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button