فیئر فنانس: پاکستانی بینکوں کے پہلے پالیسی جائرے کے نتائج جار ی

فیئر فنانس پاکستان کے پاکستانی بینکوں کے پہلے پالیسی کے جائزے کے نتائج ظاہرکرتے ہیں کہ بینکوں نے اپنی انسداد بدعنوانی کی پالیسیوں کے لیے اوسطاً اعلیٰ سکور کئے ہیں لیکن پاکستان میں انسانی حقوق کی پالیسیوں پران کی کارکردگی ناقص رہی۔ ملک کے پانچ معروف کمرشل بینکوں حبیب بینک لمیٹڈ، مسلم کمرشل بینک، میزان بینک، الائیڈ بینک اور نیشنل بینک آف پاکستان کی انسانی حقوق اور بدعنوانی سے متعلق دستیاب پالیسیوں کی بنیاد پرکئے گئے پہلے پالیسی جائزے کے نتائج کا آن لائن اجر ا( سافٹ لانچ )کیاگیا۔

جائزے میں بینکوں کی درجہ بندی صفرتا 10 تک کے پیمانے پر کی گئی تھی، جس میں صفر سب سے کم مطلوبہ اور 10 سب سے زیادہ مطلوبہ ہدف تھا۔ یہ جائزہ فیئر فنانس گائیڈ انٹرنیشنل (ایف ایف جی آئی ) کے اس طریقہ کار پر مبنی تھا جس کے تحت ذمہ دار کاروباری طریقوں کے لیے بین الاقوامی معیارات کی پاسداری کا مشاہدہ کیاجاتا ہے اور ایشیا، افریقہ، لاطینی امریکہ اور یورپ کے 20 سے زیادہ ممالک میں اس کا اطلاق بھی کیا چکا ہے ۔تاہم پاکستان میں، یہ پہلا موقع ہے کہ بینکوں کی پالیسی کا جائزہ لیا گیا اور اس کی تشہیر کی گئی ۔اس ضمن میں ایف ایف جی آئی کی طرف سے مرتب کردہ مزید تفصیلات اس سال کے آخر میں جاری کی جائیں گی۔

حبیب بینک لمیٹڈ نےسب سے زیادہ 10 میں سے چاراعشاریہ دوکی اوسط سے سکور کیا جبکہ مسلم کمرشل بینک نے تین اعشاریہ تین کے سکورکے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے ۔دیگر بینکوں میں میزان، الائیڈ بینک لمیٹڈ اور نیشنل بینک آف پاکستان نے دواعشاریہ پانچ کی اوسط سے سکور کیا۔ نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ تمام پانچوں بینکوں کی رشوت ستانی اور منی لانڈرنگ کی روک تھام کے اقدامات کو نافذ کرنے کے بارے میں مناسب اور طے شدہ پالیسیاں ہیں۔

الائیڈ بینک کے سوا تمام بینکوں نے ان کمپنیوں ،جنہیں وہ مالی معاونت فراہم کررہے ہیں ان کے مالکان کی تصدیق کے لیے نظام وضع کر رکھے ہیں ۔ سیاسی طور پر بے نقاب افراد کے ساتھ معاملات، چاہے وہ براہ راست یا بالواسطہ کاروباری تعلقات کے ذریعے ہوں، کرتے ہوئے مخصوص حفاظتی اقدامات پر عملدرآمد کے حوالے سے حبیب بینک لمیٹڈ مذکورہ بینکوں میں نمایاں ہے ۔ تاہم کسی بھی بینک نے ان کمپنیوں جن میں وہ سرمایہ کاری کرتے ہیں یا انہیںمالی اعانت فراہم کرتے ہیں ،سے متعلق ایسی کوئی معلومات فراہم نہیں کیں جن سے ان(بینکوں) کے بارے میں مختلف ماحولیاتی، سماجی اور نظم ونسق کے خدشات ظاہر ہوں۔

جائزہ کے نتائج کے آن لائن اجرا کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے فیئر فنانس پاکستان کے کنٹری پروگرام لیڈ، مسٹر عاصم جعفری نے کہا کہ مالیاتی کردار کو غیر جانبدار نہیں ہونا چاہیے، اسے معاشرے کے لیے ایک وسیع کردار ادا کرنا چاہیے۔ مالیاتی کردار کو لوگوں کی صحت کو فروغ دینے، ہوا جس کا تعلق ہماری اور ہماری آنے والی نسلوں کی بقا سے ہے،اس کی شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے دوبارہ تشکیل دیا جانا چاہیے۔ نتائج کے آن لائن اجراکے دوران قومی اور بین الاقوامی بینکنگ سیکٹر کے رہنماؤں سے خطاب کرتے ہوئے سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے بتایاکہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے مالیات نجی قرضے کے لیے ایک ایسا مخصوص ڈیسک قائم کرنے کے لیے پرعزم ہے جو ای ایس جی اور انسانی حقوق کے معیار کا جائزہ لے۔

پائیدار ترقی میں بینکوں کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے سینیٹر مانڈوی ولانے کہا کہ پاکستان میں 95 فیصد بینک نجی شعبے میں ہیں، جن کی زیادہ توجہ منافع کمانے پرمرکوز ہے۔ پاکستانی بینکوں کو موسمیاتی بحران پر ردعمل سے متعلق اقدامات کو تیز کرنا چاہیے اور محض منافع کمانے کی بجائے پائیدار مالیات کی راہ ہموار کرنی چاہئے ۔ نتائج پیش کرتے ہوئے لاہوریونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز(لمز) کے پروفیسر ایمریٹس ڈاکٹر عابد برکی نے 2021 میں بینکوں کے بارے میں فیئر فنانس پاکستان کے اسکوپنگ ریویو پر روشنی ڈالی جو کہ پانچ کمرشل بینکوں کو منتخب کرنے میں اہم تھا۔ انہوں نے سفارش کی کہ بینکوں کو بین الاقوامی معیارات کی پاسداری سمیت انسانی حقوق پر واضح پالیسیاں اپنانی چاہئیں۔

بینکوں کو سرمایہ کاری اور فنانسنگ سے متعلق انسانی حقوق کے طریقوں کے انکشاف کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ انسانی حقوق کی پالیسیوں میں حبیب بینک لمیٹڈ نے 10 میں سے صفر اعشاریہ سات کی اوسط سے اسکور کیا، اس کے بعد مسلم کمرشل بینک،الائیڈ بینک، نیشنل بینک آف پاکستان اور میزان نے تقریباً صفر اسکور کیا۔

بینک کاروبار اور انسانی حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کے رہنما اصولوں پر پوری طرح عمل نہیں کرتے تاہم میزان کو چھوڑ کر پانچ میں سے چار بینکوں نے ملازمت اور پیشے میں امتیازی سلوک کے خلاف صفر رواداری کی پالیسی کا اعلان کیا ہے۔ الائیڈ بینک اورنیشنل بینک آف پاکستان کی پالیسیوں میں صنف، نسل اور جسمانی صلاحیت کے تمام پہلوؤں کو پورا کرنے کا فقدان نظرآیا۔ کسی بھی بینک نے ان کمپنیوں کے بارے میں انسانی حقوق کی پالیسیوں کے بارے میں معلومات ظاہر نہیں کی ہے جن میں وہ سرمایہ کاری کرتے ہیں یا جنہیں مالی اعانت فراہم کرتے ہیں۔ اگرچہ ان پالیسیوں کو ظاہر نہ کرنا رازداری کے لحاظ سے بعض فوائد فراہم کر سکتا ہے جن میں سرمایہ کار اورشراکت دار کے خدشات، ساکھ، اخلاقی اور سماجی ذمہ داری اور اعتماد سے متعلق اہم خطرات شامل ہیں۔

آن لائن اجرا(سافٹ لانچ )میں ماہرین، محققین اور حکومتی عہدیداروں کا ایک اہم پینل مباحثہ کا ذکر کیا گیا جس میں انہوں نے انسانی، ماحولیاتی اور سماجی خطرات کو مدنظر رکھتے ہوئے ذمہ دارانہ سرمایہ کاری کے لیے ایشیا اور عالمی سطح پر مالیاتی اداروں کے کردار پر تبادلہ خیال کیا۔ کلیدی پینلسٹ مسٹر میر بلوچ، ڈی جی کوآرڈینیشن، سیکرٹریٹ آف سینیٹ آف پاکستان نے کہا کہ قانون سازی کے سلسلے نے پاکستان کے مالیاتی اداروں کو انسداد بدعنوانی کی پالیسیوں اور طریقوں پر مضبوط کیا۔ انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ 2022 کے سیلاب نے پاکستان کی توجہ پائیدار مالیات پر مرکوز کی ہے تاکہ مالیاتی شعبے کو لچک کے لیے متحرک کیا جا سکے۔

اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے، فیئر فنانس ایشیا کی ریجنل لیڈ محترمہ برناڈیٹ وکٹوریو نے کہاکہ یہ نتائج پاکستانی بینکوں کے لیے ماحولیاتی، بدعنوانی، جنس، انسانی حقوق، شفافیت اور توانائی کی منتقلی سے متعلق اپنی پالیسیوں کو ازسرنو ترتیب دینے کے حوالے سے بنیادفراہم کرتے ہیں تاکہ انہیں واضح معیارات اور مالیاتی اصولوں سے مزیدہم آہنگ بنایا جاسکے۔Profundo کی جولیٹ لیپلین نے کہاکہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کاای ایس آرایم مینوئل خطرے کے انتظام کے فریم ورک اور ماحولیاتی، سماجی اور انسانی حقوق کے خدشات کو دور کرنے کے لیے ایک راست ا قدام ہے۔ فیئر فنانس بینک گائیڈ نیدرلینڈز کی سربراہ باربرا اوسٹرز نے کہا کہ مالیاتی شعبے کا کردار کاربن کے اخراج کو کم کرنے کے لیے اپنے آب و ہوا کے نقوش کی پیمائش کرنے اور مالی معاونت حاصل کرنے والے شعبوں کے کاربن کے اخراج میں کردار کوجانچنے سے متعلق ایکشن پلان بنانے کے لیے مرکزی حیثیت رکھتا ہے ۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button