عوام دوست بجٹ کی راہ میں  آئی ایم ایف کی شرائط حائل

اتحادی حکومت اپنا آخری بجٹ پیش کرنے جا رہی ہے خواہش کے باوجود حکومت عوام کو ریلیف دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ ایسے حالات میں عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کا کہنا ہے کہ اس سے قبل کہ پاکستان کا آئی ایم ایف پروگرام رواں ماہ ختم ہو جائے (جس میں تقریباً 2 ارب 50 کروڑ ڈالر ابھی جاری ہونا باقی ہیں) پاکستان کو 9 جون کو پیش کیے جانے والے بجٹ سمیت تین معاملات پر فنڈ کو مطمئن کرنا ہو گا۔

پاکستان میں عالمی مالیاتی فنڈ کی نمائندہ ایستھر پیریز روئیز کا کہنا ہے کہ 6 ارب 50 کروڑ ڈالر کی توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) کے اختتام سے قبل آئی ایم ایف بورڈ کی جانب سے جائزہ کرنا باقی ہے۔ ایک ماہ کی درآمدات کی ادائیگی کے لیے پاکستان کے پاس انتہائی کم کرنسی ذخائر موجود ہیں، تاہم پاکستان نے نومبر میں ایک ارب 10 کروڑ ڈالر فنڈز جاری ہونے کی امید ظاہر کی تھی لیکن آئی ایم ایف مزید ادائیگیوں سے قبل اپنی شرائط کو پورا کرنے پر بضد تھا۔

موجودہ توسیعی فنڈ سہولت کے تحت حتمی جائزے کی راہ ہموار کرنے کے لیے فارن ایکسچینج مارکیٹ کے کام کو بحال کرنا ہو گا اور آئی ایم ایف پروگرام کی شرائط کے تحت مالی سال 2024 کا بجٹ منظور کرنا اور 6 ارب ڈالر کے فرق کو کم کرنے کے لیے قابل اعتبار مالیاتی وعدوں کو پورا کرنا ہو گا۔توسیعی فنڈ سہولت کی میعاد ختم ہونے میں صرف تین ہفتے باقی ہیں اور حکومت کو ابھی کئی اقدامات کرنے ہیں۔تاہم آئی ایم ایف کی جانب سے بیرونی فنانسنگ کے شعبے میں 6 ارب ڈالر پورے کرنے کی شرط کا بھی کہا گیا، تاہم پاکستان صرف 4 ارب ڈالرز حاصل کرنے میں کامیاب رہا جو زیادہ تر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے حاصل کیے گئے۔

مالی سال 2024 کے بجٹ پر بات چیت کا مرکز سماجی اخراجات میں اضافہ کرتے ہوئے قرض کے استحکام کے امکان کو مضبوط کرنے کی ضرورت کو متوازن کرنا ہے۔ اخراجات میں اضافے سے پاکستان کے سب سے کمزور طبقے پر مہنگائی کے اثرات کم ہوں گے لیکن حکومت کو اس کے حصول کے لیے اخراجات اور آمدنی پیدا کرنے والے اقدامات کی نشاندہی کر کے اس حوالے سے پیش رفت کرنے کی ضرورت ہوگی۔

اس کے علاوہ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ مئی میں مہنگائی کی شرح 37.9 فیصد پر پہنچ گئی تھی جو 76 سال کی بلند ترین سطح پر تھی، اس کے ساتھ ملک پہلے ہی معاشی بحران کا شکار ہے۔حکومت نے فنڈز جاری کرنے کے لیے آئی ایم ایف کو راضی کرنے کی کوشش میں ٹیکس عائد کیے، توانائی کی قیمتوں میں اضافہ کیا اور سبسڈیز کم کردیں، یہی نہیں بلکہ مرکزی بینک نے بھی پالیسی سود کی شرح میں 21 فیصد تک اضافہ کر دیا۔ آئی ایم ایف نے 10 میں سے صرف 8 نظرثانی جائزے منظور کیے ہیں جو توسیعی فنڈ سہولت کے دوران ہوئے تھے جبکہ آخری نظرثانی جائزہ گزشتہ سال اگست میں ہوا تھا۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button