قومی لباس، قومی زبان اور اب محشیٰ کارڈ

یہ مضمون موسم سرما سے ادھار تھا جو آج موسم برسات میں لکھا جا رہا یے۔ ہوا یوں کہ سرما میں ایک دن کے لئے مجھے ٹریک سوٹ پہننا پڑا۔ یہ جوڑا گرم تو تھا مگر اس کے علاوہ ضرورت پوری نہیں کر رہا تھا۔ مثلاً موبائل رکھنے میں بڑی مشکل پیش آئی کہ اس کو کہاں رکھیں؟ اگر کرتی کی جیب میں رکھتے ہیں تو زنجیر کھولنے کی صورت میں وہ کبھی دائیں جاتا ہے اور کبھی بائیں اور پاجامے میں رکھتے ہیں تو اٹھتے بیٹھتے مشکل پیش آ رہی ہے۔

یہی حال دوسری چیزوں کا بھی ہے۔ اسی طرح نماز پڑھنے لگا تو بھی خاصی دقت پیش آئی کیونکہ وضو کے لئے کرتی اتارنا پڑی اور پاجامے کو کھینچ تان کر اوپر کر کے پاؤں دھوئے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی خیال آیا کہ پینٹ پہننا کتنا مشکل کام ہے کہ اول تو وہ بہت کسی ہوئی ہوتی ہے اور دوم اس میں جیبیں بڑے غلط مقام پر لگی ہیں کہ یا تو آپ کو آگے ہاتھ مارنا ہے یا پیچھے اور اسلامی معاشرے میں سب کے سامنے ان دونوں مقامات کو چھونا بہر حال معیوب ہے اگرچہ اب اس کی تمیز نہیں رہی۔

اس لحاظ سے ہمارا لباس بہت اچھا ہے کہ اس میں آپ چلنے پھرنے سے لے کر دوڑنے لیٹنے تک سارے کام پردے کے ساتھ کر سکتے ہیں۔ وضو نماز میں کوئی مشکل نہیں اور جیبیں تو واہ واہ کہ گھوڑے کی خرجین کی طرح جتنی چاہیں چیزیں ڈالیں، جب تک نیچے سے سوراخ نہ ہو جائے اوپر سے کوئی چیز نہیں گرتی۔ میں تو ذاتی طور پر قمیص کی دونوں جیبوں میں خرجین ہی کی طرح توازن برقرار رکھتا ہوں۔ اگر ایک جیب میں سامان زیادہ ہونے سے وزن میں فرق آ جائے تو بڑی کوفت ہوتی ہے۔ اس لئے اگر کوئی اضافی چیز رکھنی پڑ جائے تو وزن درست کرنا پڑتا ہے۔ یہ لطف پینٹ شرٹ یا ٹریک سوٹ میں کہاں ہے۔

اسی لئے کافی عرصہ پہلے ایک مشہور امریکی انگریزی رسالے میں "پریئر پینٹس” کے عنوان سے ایک مضمون چھپا تھا جس میں ایسی پینٹ کے بارے میں بتایا گیا تھا جو مسلمانوں کی ضروریات کے مطابق تھی۔ اس میں کئی اضافی جیبیں رانوں اور ٹانگوں پر لگائی گئی تھیں لیکن وہ بھی شلوار کی متبادل نہیں ہو سکتی۔ ہمارے قومی لباس کی بڑی خوبیاں ہیں لیکن اس کی ایک خامی ساری خوبیوں پر پانی پھیر دیتی ہے کہ ہماری اشرافیہ نے اسے غریب اور نچلے طبقے کا لباس بنا دیا ہے۔

قومی لباس کی بے توقیری دیکھنی ہو تو کبھی اسلام آباد کے سیرینا ہوٹل چلے جائیں کہ وہاں دروازہ کھولنے والا کوتاہ قد شخص طرے دار پگڑی، سفید شلوار قمیص اور واسکٹ پہنے ہوتا ہے۔ اس سے آگے جاروب کش نیم قومی نیم انگریزی لباس میں اور استقبال کرنے والا ملازم پورا فرنگی ہوتا ہے۔ پردے اور سردی گرمی سے بچنے کے فوائد کے علاوہ کسی بھی علاقے کا لباس وہاں کی پہچان ہوتا یے۔

آپ سو قوموں کے لوگوں میں شلوار قمیص سے ایک پاکستانی کو پہچان سکتے ہیں۔ نہ معلوم ہمیں اپنے لباس سے کیوں چڑ ہے کہ جس کی جیب میں چند ٹکے آ جاتے ہیں، یا جسے کوئی ذرا سا منصب مل جاتا ہے تو وہ اپنی چال ہی بھول جاتا ہے۔ شاید یہ ہمارے احساس کمتری کا شاخسانہ یے۔

خیر اسی ٹریک سوٹ میں وقت مل گیا تو گاڑی بانی کے اجازت نامے کی تجدید کے لئے اسلام آباد ٹریفک پولیس کے دفتر پہنچا۔ اگرچہ اب وہاں کمپیوٹر کے استعمال کی وجہ سے قطار نہیں ہوتی بلکہ آپ سکون سے بیٹھ کر اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں لیکن مجھے مطلوبہ کاغذات پورے کرنے کے لئے کافی تگ ودو کرنا پڑی۔ یہ مرحلہ مکمل کر کے جب میں ٹوکن لینے کے لئے خاتون پولیس اہلکار تک پہنچا تو اس نے پوچھا کہ آپ کیا کرنا چاہتے ہیں؟ میں نے کہا لائسنس کی تجدید کرانی ہے۔ یہاں "تجدید” کا لفظ اس کے سر کے اوپر سے گزر گیا تو اس نے دوبارہ سوال کیا کہ آپ کے پاس پہلے لائسنس ہے؟ میں نے ہاں میں جواب دیا تو وہ بولی "اچھا آپ ری نیو کرانا چاہتے ہیں” میں نے اثبات میں سر ہلا دیا مگر ساتھ ہی سوچنے لگا کہ عجیب بات ہے، صبح سے شام تک بلا مبالغہ سینکڑوں لوگ یہاں لائسنس کی تجدید کے لئے آتے ہیں مگر محترمہ کے لئے یہ لفظ ہی انجانا ہے۔

قومی لباس کے بعد قومی زبان کے اس حال پر بھی بہت دکھ ہوا۔ اگلے مراحل طے کر کے لائسنس لینے کے لئے کھڑکی پر پہنچا تو وہاں ایک اور لطیفہ منتظر تھا۔ اس بار لائسنس کی شکل اور رنگ بھی بدل دیا گیا ہے اور اسے معمول کی بجائے "محشیٰ” بنایا گیا ہے۔ ہر سطر پر ایک حاشیہ نمبر دیا گیا ہے اور اس کی تشریح پشت پر کی گئی ہے۔ مثلا اے لکھ کر آگے نام لکھا گیا ہے۔ اب آپ دوسری طرف جا کر دیکھیں گے کہ اے کا مطلب کیا ہے۔ اسی طرح بی سی ڈی وغیرہ۔ مجھے اس حاشیہ آرائی پر حیرت ہوئی کہ یہ پہلا محشی کارڈ ہے۔ اس پر ٹریفک پولیس کے اس ہونہار، زیرک اور عقلمند اہلکار کو انعام دینا چاہئے جو اتنی دور کی کوڑی لایا ہے اور اس کو بھی جس نے اس کی منظور ی دی۔ کم از کم میں نے اپنی زندگی میں قبل ازیں ایسا کوئی کارڈ نہیں دیکھا۔ بہر حال "بزرگ مہر” یعنی "بزرجمہر” اب بھی دنیا میں پائے جاتے ہیں۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button