بنوں میں جنرل چارلس جان نکلسن کی تاریخی حویلی
برطانوی سلطنت کے بریگیڈیئر جنرل چارلس جان نکلسن کو ضلع بنوں کے تیسرے ڈپٹی کمشنر کا اعزاز حاصل ہے
بریگیڈیئر جنرل چارلس جان نکلسن برطانوی ہند کے وکٹورین دور میں سلطنت برطانیہ کے لیے اپنی خدمات کے لیے مشہور ہے۔ وہ 11 دسمبر1821ء میں شمالی آئر لینڈ میں پیدا ہوئے۔ جب ان کی عمر نو سال تھی تو ان کے والد ڈاکٹر الیگزینڈر جے نکلسن انتقال کر گئے۔ چھ فٹ دو انچ کے قد کاٹھ کا نوجوان جان نکلسن جب 16 سال کی عمر میں بھارت آئے تو بنگال انفنٹری میں کمیشن کے ذریعے براہ راست کیڈٹ بھرتی کر لیا گیا۔ اُن کی رینک جنرل بریگیڈئیر رہی۔
بنوں تعیناتی کے بعد ان کی یہ کوشش رہی کہ وہ راجاؤں پربرٹش رولز لاگو کریں، اُن کی سروس 1839ء سے لیکر1857ء تک رہی اُنہوں نے بہت سی جنگیں لڑی جن میں فرسٹ اینگلو افغان وار، فرسٹ اینگلو سکھ وار، سیکنڈ اینگلوسکھ وار وغیرہ شامل ہیں جن کی بدولت اُن کو کابل میڈل، ستلج میڈل، انڈین جنرل میڈل، انڈیاملٹری میڈل اورپنجاب میڈل دئیے گئے۔
ایسٹ انڈیا کمپنی اور افغانستان کے مابین 1839ء تا 1842ء تک لڑی گئی، جنگ میں انہیں 1840 میں انگلو افغان جنگ میں جلال آباد بھیج دیا گیا۔ باری علیگ کی کتاب کمپنی کی حکومت میں لکھا گیا ہے جہاں شدید ترین برف باری اور نامساعد حالات کی وجہ سے انہیں گرفتار کر لیا گیا بعد ازاں ایک معاہدے کی رو سے اسے چھ ماہ بعد 1842ء میں رہا کیا گیا، اسی سال نومبر میں اس کی ملاقات اپنے چھوٹے بھائی سے ہوئی جو تازہ دم ہندوستان آیا تھا۔
دو دن بعداس کے یونٹ پر خیبر پاس میں گھات لگا کر حملہ کر دیا گیا۔ نکلسن نے اپنے چھوٹے بھائی کی لاش دیکھ کر ایک خونی عزم کیا، اس تکلیف دہ واقعے نے اس کے مزاج میں بہت سختی پیدا کی اور اس کے اس یقین کو مضبوط کیا کہ عیسائی تہذیب کو پھیلانا اس کا فرض بن چکا ہے۔ 1845ء میں مراد آباد میں تعینات رہتے ہوئے انہوں نے اردو میں مہارت حاصل کی اور مقامی زبان کے امتحانات پاس کر لیے۔
پشاورکے علاوہ وہ راولپنڈی کے پہلے ڈپٹی کمشنر جبکہ بنوں کے لاقانونیت والے قبائل پر حکومتی دباؤ بڑھانے کیلئے بحیثیت ڈپٹی کمشنرتعینات کیا گیا۔ جہاں اس کا دورانیہ 1852ء تا 1856ء رہا۔ واضح رہے کہ وہ ضلع بنوں کے تیسرے ڈپٹی کمشنر رہے۔
ضلع بنوں ایک اہم ترین اور خوبصورت علاقہ ہے یہ علاقہ انگریزوں کی خاص توجہ کا مرکز رہا وجہ یہ تھا کہ یہ علاقہ شمالی وزیرستان کے ساتھ متصل ہے جو آگے جا کر افغانستان سے جا ملتاہے۔ اس شہر کو ہر دور میں ایک اہم مقام حاصل رہا، مختلف فاتحین اس راستے سے گزرے ہیں۔ بنوں جغرافیائی، تاریخی اور سیاسی لحاظ سے اہم مقام رکھتا ہے ضلع بنوں ایک طرف افغانستان سے اور دوسری طرف پنجاب کے صوبے سے ملا ہوا ہے۔ اس لئے ماضی میں بیرونی فاتحین کی گزر گاہ رہا۔
گزشتہ دنوں ڈپٹی کمشنر کیپٹن (ر) زبیرمحمد نیازی کی خصوصی اجازت اور آصف محمود(ڈائریکٹربنوں ہیریٹیج) کی خصوصی دعوت سے اِس خوبصورت گھر کو دیکھنے کا موقع ملا بنوں کینٹ میں(موجودہ ڈپٹی کمشنرآفس سے متصل) اُس نے اپنی رہائش کیلئے ایک حویلی نما پندرہ کنال کے رقبے پرمحیط گھر بنایا تھا جو 170سال کا ایک طویل عرصہ گزرنے کے باوجود بھی آج تک اُسی شان و شوکت اور اپنی اصل حالت میں موجود ہے۔
نکلسن یہاں بیٹھ کربنوں کے لوگوں سے ملاقاتیں کرکے اُن کے مسئلے مسائل حل کرتا تھا۔ اگر ہم اس گھر کے تعمیراتی ڈیزائن کو دیکھیں تو یہاں پر اِس کی کھڑکیوں، دروازں، دیواروں سمیت تقریباً سبھی اشیاء کو موجودہ دورکے تعمیرات کی شکل دے دی گئی ہے البتہ اگر اس کی چھت کو دیکھا جائے تو اس میں آج کی سب سے قیمتی ترین لکڑی دیار کا استعمال کیا گیا ہے۔ گھر کی چھتیں گول اورپندرہ فٹ تک فرش سے بلند ہیں، چھت میں اعلیٰ اور عجیب قسم کی وینٹی لیٹر موجود ہے، گھرکے تقریباً سبھی کمروں سردی سے بچنے کیلئے آگ روشن کرنے کا چیمبر موجود ہے۔
چونکہ اس وقت بنوں بلکہ برصغیر میں بجلی نہیں آئی تھی اس لئے گرمی سے بچنے کیلئے بیڈروم کے دروازے کے اگلے سرے پرایک چھوٹا سا سوراخ بھی دیکھنے کوملتا ہے جس میں کمرے کے اندر کی طرف سے ایک رسی آ جاتی تھی، کمرے کے باہر ملازم اس رسی کو آگے پیچھے کھینچتا تھا جس کمرے کے اندر موجود پنکھے کو حرکت ملتی تھی جس سے نکلسن کو ہوا مہیا کی جاتی۔
گھر میں میوزک روم بھی موجود ہے جہاں بیٹھ کر نکلسن میوزک سنا کرتا، روایات کے مطابق بعض اوقات ڈانس پارٹی کا بھی اہتمام ہوا کرتا تھا۔ اس حویلی نما عمارت کے تقریباً بیس سے زیادہ داخلی و خارجی دروازے ہیں ہردروازے کے اوپر حصے میں روشنی کیلئے سلالیٹ بھی لگائے گئے ہیں ہر کمرے دوسرے سے نہ صرف متصل بلکہ اندرسے دروازے لگائے گئے ہیں برآمدے میں موجود ہر کمرے میں صحن کی طرف ایک کھڑکی بنائی گئی ہے جس سے باہر دیکھ کر نکلسن باہر کی شادابی اور مو سم سے لطف اندوز ہوا کرتا تھا۔
اس گھرکے شاندار فن تعمیر کی تعریف تب ہی کی جا سکتی ہے جب کوئی اس کے اندر ہو۔ نکلسن سخت مزاج تھا اور معمولی خلاف ورزیوں پر بھی سخت سزائیں دیتا تھا اس نے مقامی لوگوں میں خوف پیدا کیا، چند لوگوں نے اس کے ظلم سے بغاوت کی۔
1856 میں بنوں کینٹ میں انہیں قتل کرنے کی کوشش کی گئی۔ قاتل کے ہاتھ میں تلوار تھی اور نکلسن پر زور دار حملہ کیا لیکن معجزاتی طور پر وہ اس حملے سے بچ گیا، البتہ حملہ اورکو گولی مار کر قتل کیا۔ اِس واقعے کی تفصیلات اُس نے اپنے دوست ایڈورڈز کو خط میں یوں بیان کرتے ہوئے لکھا کہ میں نے ایک سنتری کا پستول چھین لیا اور قاتل کو بتایا کہ اگر اس نے اپنی تلوار نیچے نہیں کی اور ہتھیار نہ ڈالے تو میں گولی چلا دوں گا۔ اس نے جواب دیا کہ یا تو اسے مرنا ہے یا مجھے۔ اس لیے میرے پاس کوئی دوسرا متبادل نہیں تھا اور اس نے اسے سینے پر گولی مار دی۔
جان نکلسن کی شخصیت اپنی زندگی کے اعتبار سے متنازعہ کردار کی حامل رہی۔ اسے اس کے ماتحت فوجی اور ساتھی افسران ناپسند کرتے تھے اور وہ خود بھی افغانوں اور بھارتی باشندوں سے نفرت کرتا تھا۔ مشہور ہے جب انہیں راولپنڈی کا ڈپٹی کمشنر لگایا گیا تو انہوں نے ایک نامی گرامی باغی کا سر کاٹ کر اپنی میز پر رکھ لیا جو شخص بھی ان سے ملنے آتا وہ پوچھتا تھا کہ یہ کون ہے؟ اپنے ایک ساتھی افسر سے کہا تھا، برطانوی خواتین اور بچوں کے قاتلوں کو زندہ حالت میں ٹکڑے ٹکڑے کر دینا چاہیے یا انہیں جلا دینا چاہیے۔
ایسے جرائم کے مرتکب افراد کو صرف پھانسی پر لٹکانا تو محض پاگل پن ہو گا۔ William Dalrymple نامی مؤرخ نے اپنی کتاب دا لاسٹ مغل میں جان نکلسن کو ایک امپیریل جنونی قرار دیا ہے، جو بہت بے رحمی کے ساتھ انتہائی نوعیت کی جارحیت اور بربریت کا مزاج رکھتا تھا۔11 مئی 1857 کو نکلسن اپنے دوست ایڈورڈز کے ساتھ پشاور میں کھانا کھا رہے تھے جب انہیں ہندوستانی بغاوت کی خبر ملی۔ اس نے فوری ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے نوشہرہ میں 55 ویں بنگال کی مقامی انفنٹری کی بغاوت کو کچل دیا، زیادہ تر قیدیوں کو پھانسی دے دی۔ وہ 14 جون کو پشاور سے دہلی کے لیے اپنے موو ایبل کالم کے کمانڈر کے طور پر روانہ ہوا۔
دہلی کے محاصرے کے دوران جب انگریز فوج شہر میں داخل ہوئی تو کشمیری گیٹ سے داخل ہوتے ہوئے 14 ستمبر کو ایک گولی بریگیڈیئر جنرل جان نکلسن کو لگی جس سے وہ زخمی ہو گئے بعد اَزاں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے 23 ستمبر کو اپنے زمانے کی یہ کرشماتی شخصیت ہمیشہ ہمیشہ کیلئے خاموش ہو گئی اُس کو دہلی میں کشمیری گیٹ کے سامنے دفن کر دیا گیا اور اس کا ایک مجسمہ بھی یہاں نصب کیا گیا۔
ٹیکسلا کے قریب مارگلہ کی ایک پہاڑی کے اوپر جہاں جنرل نکلسن پہلی بار زخمی ہوا تھا، کی یادگار ایک ستون کی شکل میں موجود ہے۔ ساتھی سپاہیوں کی اس محبت نے نادانستہ طور پر ہی سہی ایک پراسرار فرقے نکل سین کو جنم دیا۔ جس کا دہلی میں آج تک اُس کا پوجا پاٹ کرنے والے ملتے ہیں۔
جیسے ہی نکلسن کی موت کی خبر بنوں پہنچی، ان کے دوست ایڈورڈز نے ان کی پیار بھری یاد میں ایک سنگ مرمر کی تختی کندہ کر کے رکھ دی۔ جس پراُس کی انگریز سرکار کیلئے خدمات اورجوانی کی موت پرغم و افسوس، مدح وغیرہ سمیت دیگر دکھی الفاظ کندے کئے گئے اوراُس کی روح کو آرام پہنچانے کیلئے بنوں کینٹ میں مال گودام سے تھوڑا آگے ایک چرچ تعمیر کرایا جس میں وہ کتبہ رکھ دیا۔
نکلسن کے مرنے کے کافی عرصے بعد بنوں کے آس پاس کے دیہاتوں میں ان کے بارے میں کہانیاں مشہور ہو گئیں۔ بنوں کے مقامی لوگ آج تک اُس کو نیکوڑسین کے نام سے یاد کرتے ہیں۔