شہر اقتدار میں تصادم، حالات کشیدہ ہو گئے
حکومت اور اپوزیشن کے درمیان جاری اعصاب کی جنگ میںکون کتنی غلطیاں کر رہا ہے؟
پولیس کے ہوتے ہوئے انصار الاسلام کے رضا کار پارلیمنٹ کے باہر اور پارلیمنٹ لاجز میں کیا کر رہے تھے جمعیت علماء اسلام کو اس کا جواب دینا چاہئے، ہم سمجھتے ہیں رضا کاروں کی تعیناتی میں جمعیت علمائے اسلام سے غلطی ہوئی ہے اگر انہیں اپنے ایم این ایز کی حفاظت سے متعلق تحفظات تھے تب بھی پولیس سے رجوع کیا جانا چاہئے تھا۔ ایم این ایز کی حفاظت کیلئے پولیس پر اعتماد نہ کرتے ہوئے انصار الاسلام کے رضا کاروں کو تعینات کرنے کا مطلب یہ ہے کہ انہیں ریاستی اداروں پر اعتماد نہیں ہے کسی بھی سیاسی جماعت کو اس طرح کا طرز عمل اختیار نہیں کرنا چاہئے کیونکہ سیاسی جماعتیں ادروں کی مضبوطی کی علامت ہوا کرتی ہیں۔
دوسری طرف دیکھا جائے تو اس معاملے کو سنبھالنے میں حکومت سے اپوزیشن سے بھی بڑی غلطی کر چکی ہے، اگر انصار الاسلام کے چند رضا کار پارلمینٹ لاجز میں اپنے ایم این اے کی حفاظت کیلئے اس کی دعوت پر چلے گئے تھے تو کوئی بڑی قیامت نہیں آ گئی تھی، بتایا گیا ہے کہ پارلیمنٹ لاجز میں جانے والے انصار الاسلام کے رضا ایم این اے کی دعوت پر گئے اور گیٹ پر باقاعدہ ان کا اندراج موجود تھا، اگر حکومت کو شک تھا تو تب بھی اسے احسن انداز سے سلجھایا جا سکتا تھا مگر اعلیٰ سطحی آرڈر کے بعد پولیس کی بھاری نفری بھیج دی گئی اور پارلیمنٹ لاجز سے رضا کاروں کو نکالنے کیلئے خوب دنگا فساد ہوا۔
انصار الاسلام کے رضا کار چونکہ پارلیمنٹ لاجز میں صلاح الدین ایوبی کے گھر میں تھے تو پولیس نے انہیں نکالنے کی کوشش کی جب وہ باہر نہ آئے تو گھر کا دروازہ توڑ دیا گیا، صلاح الدین ایوبی کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ ان کے فیملی بھی موجود تھی یوں چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کیا گیا۔ اس ہنگامہ آرائی میں ارکان پارلیمنٹ، سینیٹر، پولیس اہلکار اور انصار الاسلام کے رضا کار زخمی ہو چکے ہیں۔
پولیس نے انصار الاسلام کو ابھی گرفتار کرنا شروع ہی کیا تھا کہ جمعیت علما اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اعلی قیادت کے ساتھ پارلیمنٹ لاجز پہنچ گئے اس موقع پر مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ آصف بھی ان کے ہمراہ تھے انہوں نے پولیس کی جانب سے رضا کاروں کو گرفتار کئے جانے پر سخت ردعمل ہوئے پولیس کی ان گاڑیوں کو روک لیا جن میں رضا کاروں کو گرفتار کر کے بٹھایا گیا تھا مولانا فضل الرحمان نے پورے ملک میں پھیلے اپنے کارکنوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ احتجاج پر نکل آئیں اور شاہراؤں کو بند کر دیں، نہ صرف اپنے کارکنوں کو ہدایت دی بلکہ انہوں نے کہا کہ وہ پی ڈی ایم کے سربراہ کی حیثیت سے تمام سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کو احتجاج کے لئے باہر نکلنے کی ہدایت کی انہوں نے کہا کہ جو کارکنان اسلام آباد پہنچ سکتے ہیں وہ پہلی فرصت میں اسلام آباد پہنچ جائیں اور جو کارکنان اسلام آباد نہیں پہنچ سکتے وہ اپنے اپنے شہروں میں احتجاج کریں۔
شہر اقتدار میں ہونے والے اس واقعے بعد اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ تحریک عدم اعتماد سے پہلے ہی محاذ گرم ہو گیا ہے،تحریک انصاف حکومت بوکھلاہٹ کا اظہار کر کے تصادم کا پورا موقع فراہم کیا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ تحریک عدم اعتماد کا باقاعدہ عمل شروع ہونے میں دو ہفتے کا وقت لگ سکتا ہے کیونکہ پارلیمنٹ میں او آئی سی کے اجلاس کے پہلے مرمت کا کام ہو رہا ہے سو قوی امید ہے کہ او سی آئی کے اجلاس سے قبل تحریک عدم اعتماد پیش نہیں کی جا سکے گی۔ تاہم تحریک عدم اعتماد سے پہلے حالات کشیدہ ہو جائیں گے، ایسی صورتحال میں جس سے زیادہ غلطیاں ہوں گی وہ خسارے میں رہیں گے۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اپوزیشن سے زیادہ حکومت غلطیاں کر رہی ہے جو اپوزیشن کو موقع فراہم کر رہی ہے کہ وہ حکومت کے خلاف احتجاج کا آغاز کریں۔