اسلام آباد کا شہری ہونا آسان نہیں
دارالحکومت اسلام آباد میں رہنا ہر شہری کا خواب ہو سکتا ہے، مگر اسلام آباد کے شہریوں کو کن مشکلات سے گزرنا پڑتا ہے اس کا اندازہ وہاں کے مکین ہی لگا سکتے ہیں، کیونکہ کسی بھی وقت کوئی بھی راستہ ’’روٹ‘‘ کے نام پر بند کر دیا جاتا ہے۔ دارالحکومت ہونے کے باعث ہر روز کوئی نہ کوئی ایکٹویٹی چلتی رہتی ہے کبھی اندرونی کبھی بیرونی۔
وزیر اعظم، صدر، وزراء حتیٰ کہ مشیران اور سکرٹری لیول کے افسران چاہتے ہیں کہ جب وہ باہر نکلیں تو ان کے آگے پیچھے ہٹو بچو کی آوازیں لگانے والے موجود ہوں۔
غیر ملکی اعلیٰ سطح کے حکام کو فول پروف سکیورٹی دینے کا جواز موجود ہے کیونکہ ہمارے ہاں امن و امان کی صورتحال کے پیش نظر ناخوشگوار واقعات سے بچنے کیلئے پیشگی انتظامات ہی واحد حل ہے۔
وی آئی پی شخصیات کو پروٹوکول دینے کے علاوہ سیاسی جماعتوں کے تمام تر احتجاج اسلام آباد میں ہوتے ہیں یہ احتجاج جب دھرنے میں تبدیل ہوتے ہیں تو کئی دنوں تک دارالحکومت کی باسیوں کی زندگی اجیرن ہو جاتی ہے۔ اسی طرح ہر شعبہ زندگی کے لوگوں کو جب حکومت سے شکایت ہوتی ہے تو وہ دارالحکومت میں احتجاج کیلئے ڈیرے ڈال لیتے ہیں۔
اسلام آباد، راولپنڈی میں گزشتہ چار روز سے پاکستان اور آسٹریلیا کی کرکٹ ٹیموں کے درمیان ٹیسٹ میچ ہو رہا تھا، چونکہ آسٹریلیا کی ٹیم 24 سال بعد پاکستان کے دورے پر آئی تھی اس لئے انہیں فول پروف سکیورٹی فراہم کی گئی، اس سلسلے میں چار روز تک ٹریفک متاثر رہی کیونکہ سٹیڈیم کے آس پاس آٹھ سے دس کلو میٹر تک راستہ بند کر کے متبادل روٹس پر ٹریفک ڈال دینے سے شہریوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔
میچ ختم ہونے سے پہلے ہی پاکستان پیپلزپارٹی کا لانگ مارچ اسلام آباد میں داخل ہو چکا تھا یوں بدترین ٹریفک جام ہو گئی، کیونکہ لانگ مارچ میں ہزاروں افراد شریک ہیں، اور ہزاروں گاڑیوں نے ٹریفک کے نظام کو معطل کر دیا، ٹریفک اہلکار موجود تھے مگر ہو ٹریفک کر کنٹرول کرنے سے قاصر تھے۔
جب تریفک جام ہوتا ہے تو بالعموم حکمرانوں کو شہریوں کی اذیت کا اندازہ نہیں ہو پاتا ہے کیونکہ حکمران جس جگہ پر قیام پذیر ہوتے ہیں وہاں پر ٹریفک کے مسائل نہیں ہوتے ہیں۔ نئی قائم ہونے والی سوسائٹیوں میں گنجان آباد علاقوں کی نسبت کم مسائل ہوتے ہیں مگر شہر کی زیادہ تر آبادی گنجان آباد علاقوں میں مقیم ہوتی ہے۔
جب پیپلزپارٹی کا لانگ مارچ اسلام آباد میں داخل ہوا تو شہر کا نظام درہم برہم ہو گیا، ایسی صورتحال میں پبلک ٹرانسپورٹ بند ہو جاتی ہے جبکہ اپنی گاڑی والے لوگ پریشانی میں مبتلا ہوتے ہیں کیونکہ جب ٹریفک جام ہو جاتی ہے تو آگے جانے کا آپشن ہوتا ہے نہ پیچھے مڑنے کا۔ اس دوران کئی لوگ برداشت کا دامن چھوڑ بیٹھتے ہیں اور آپس میں گتھم گھتا ہو جاتے ہیں۔
پیپلزپارٹی کے لانگ مارچ کے بعد جڑواں شہروں میں ٹریفک مسائل خوفناک شکل اختیار کر گئے ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ٹریکف دباؤ کی وجہ سے اندرون شہر کے گلی محلوں میں بری طرح سے ٹریفک جام ہو گئی ہے، کئی ایمبو لینسیں ہوٹر بجا رہی ہیں مگر آگے جانے یا پیچھے مڑنے کا آپشن نہیں ہے۔ ان تلخ تجربات کے بعد یہی کہا جا سکتا ہے کہ دارالحکومت کا شہری ہونا آسان نہیں ہے۔