آبادی میں توازن پاکستان کیلئے بڑا چیلنج
خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک کو ختم، ان کی صحت میں بہتری، آبادی اور وسائل میں توازن کی ضرورت ہے
آبادی میں توازن پاکستان کا بڑا مسئلہ ہے، پاپولیشن کونسل آبادی میں توازن کیلئے ایک عرصہ سے کوشاں ہے۔ اسی مقصد کیلئے 7 مارچ کو اسلام آباد میں پاپولیشن کونسل پاکستان نے ایک کانفرنس کا اہتمام کیا جس میں سماجی ماہرین، اہل دانش، ڈاکٹر اور صحافیوں کی بڑی تعداد نے شرتک کی۔
ماہرین نے اس طرف توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی کہ ملک میں بڑھتی ہوئی آبادی، کم عمری کی شادی، صحت اور محفوظ زچگی کی سہولیات کے فقدان، غذائی قلت اور دوران زچگی سالانہ شراح اموات پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے خواتین اور نوجوانوں کی تولیدی صحت کی بہتری کے لئے موثر قانون سازی اور قابل عمل حکمت عملی کی تشکیل کا مطالبہ کیا ہے۔
پاپولیشن کونسل اور یو این ایف پی اے کے اشتراک سے یوم خواتین کے تناظر میں منعقدہ نیشنل میڈیا کولیشن میٹنگ کا انعقاد ہوا جس میں چاروں صوبوں کے میڈیا سے تعلق رکھنے والے صحافیوں نے شرکت کی۔ میٹنگ کے شرکاء کو بتایا گیا کہ پاکستان میں نوے لاکھ بچیوں کو تعلیم کے بنیادی حق تک رسائی حاصل نہیں، سالانہ دوران زچگی گیارہ ہزار مائیں موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں اور روزانہ کا یہ تناسب 30 خواتین ہیں ۔
17لاکھ بچیوں کی 18 سال سے کم عمر میں ہی شادی کردی جاتی ہے۔ ملک بھر میں ساٹھ لاکھ سے زائد جوڑے فیملی پلاننگ کرنا چاہتے ہیں تاہم انہیں خاندانی منصوبہ بندی کی سہولیات دستیاب نہیں۔ ملک میں 80لاکھ خواتین تشدد کا شکار ہیں 45 فیصد خوراک کی کمی کا شکار ہیں 74 فیصد خواتین بامعاوضہ ملازمت نہیں کرتیں۔ ملک میں 95 فیصد مردوں کے مقابلے میں 25 فیصد خواتین برسرروزگار ہیں جبکہ صرف دس فیصد خواتین اپنی صحت سے متعلق خود فیصلہ کر سکتی ہیں۔
اسی طرح 37 فیصد شادی شدہ خواتین کی صحت سے متعلق فیصلے ان کے شوہر کرتے ہیں۔ میٹنگ کے آغاز میں پاپولیشن کونسل سینئر ڈائریکٹر پروگرامز ڈاکٹر علی میر اور پروجیکٹ ڈائریکٹر سامیہ علی شاہ نے کہا کہ پاکستان میں آبادی کا غیر معمولی اضافہ تشویش کا باعث ہے وسائل سکڑ رہے ہیں جبکہ مسائل کا حجم بڑھ رہا ہے۔ رواں برس عالمی یوم خوا تین کا تھیم سماجی تعصبات کا خاتمہ ہے جوکہ خواتین کی صحت پر اثر انداز ہوتے ہیں لیکن یہ تب ہی ممکن ہے جب ہم خواتین کو صحت و روزگار سمیت جملہ بنیادی سہولیات فراہم کریں اور انہیں سیاسی و سماجی شعبوں میں فیصلہ سازی کا اختیار دیں۔
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ماہرِ عمرانیات ڈاکٹر فوزیہ یزدانی نے کہا کہ پاکستان ایسے عالمی معاہدات کا دستخط کنندہ ہے جس کے تحت کم عمری کی شادی اور خواتین کے حقوق کا تحفظ لازم ہے اس کے ساتھ ساتھ قومی اسمبلی اور چاروں صوبوں کی قانون ساز اسمبلیوں نے ترقی کے پائیدار اہداف پر عمل درآمد سے متعلق قانون سازی کی ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 34، 14 اور 9 کے تحت خواتین اور بچوں کے حقوق کا تحفظ ریاست کی بنیادی ذمہ داری میں شامل ہے۔
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے یو این ایف پی اے کے پروگرام اسپیشلسٹ ڈاکٹر جمیل احمد نے کہا کہ پاکستان میں دوران زچگی شرح اموات پورے ریجن سے زیادہ ہے جس پر قابو پانے کیلئے ہمیں معاشرتی رویوں کو تبدیل کرنا ہوگا اور فیملی پلاننگ کی حکمت عملی میں نجی شعبے کو حصہ دار بنا کر سماجی پروگرامز کو وسعت دینا ہوگی۔ میٹنگ میں ملک بھر سے شریک میڈیا کے نمائندوں نے خواتین اور نوجوانوں کی تولیدی صحت اور جملہ حقوق کے تحفظ کیلئے مل کر کام کرنے کے س عزم کا اعادہ کرتے ہوئے آگاہی مہم چلانے کی ضرورت پر اتفاق کیا۔
پروگرام کےاختتام پر پاپولیشن کونسل کی مینیجر ایڈوکیسی ہما اقبال نے شرکاء کا شکریہ ادا کرتے ہوئے بہبود آبادی سے متعلق جاری اقدامات کو قومی اور علاقائی میڈیا میں تسلسل کے ساتھ اجاگر کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔