اسلام آباد کی پہلی آڑھتی خاتون
عام طور پر شاپنگ مالز اور ریٹیل سٹورز میں خواتین کسٹمرز کی تعداد زیادہ نظر آتی ہے البتہ اس کاروبار کے پیچھے زیادہ تر مرد ہی ہوتے ہیں تاہم اسلام آباد کی عائشہ رشید نہ صرف ریٹیل سٹورزکی چین کامیابی سے چلا رہی ہیں بلکہ کئی خواتین کو روزگار کے مواقع بھی فراہم کر رہی ہیں۔
عائشہ نے آج سے پانچ سال پہلے چند لاکھ روپے کی لاگت سے کارپوریٹ سیکٹر کو چائے کی ترسیل کا کام شروع کیا تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ آڑھت کا کاروبار کرنا ہرگز آسان نہیں ہے، روزانہ بہت بھاگ دوڑ کرنا پڑتی ہے اور روایتی طور پر یہ کام مرد ہی کرتے آئے ہیں، اُن کا کہنا ہے کہ خریداری، فنانس اور ایچ آر سے لے کر ہر چیز خود مانیٹر کرنا ہوتی ہے، چونکہ ہم صارفین کو ہزاروں مصنوعات فروخت کر رہے ہیں تو ایک ایک کرکے ہر چیز کی میعاد، معیار اور دستیابی کے معاملات کو دیکھنا ایک مشکل کام ہے۔
عائشہ نے اس کاروبار کا آغاز ایک سٹور سے کیا تھا جو اب بڑھ کر تین سٹورز اور پانچ بیکریوں میں تبدیل ہو چکا ہے۔ عائشہ کے مطابق اُن کی اس کامیابی میں اُن کے عملے کا بہت بڑا ہاتھ ہے، جس کی اکثریت خواتین پر مشتمل ہے۔ اسلام آباد اور راولپنڈی میں آٹھ سے زائد ایسے ڈیپارٹمنٹل سٹورز موجود ہیں جن کی کئی شاخیں ہیں اوریہاں روزانہ لاکھوں کا کاروبار ہوتا ہے لیکن خواتین ملازمین کی موجودگی عموماً صرف میک اپ یا خواتین سے جڑی دوسری مصنوعات کا رخ کرنے تک محدود ہوتی ہے۔
عائشہ کے سٹورز میں خواتین ہر شعبے میں کام کرتی نظر آتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ مجھے لگتا تھا کہ اگر میں نے سٹور بنایا یا اس شعبے میں آئی تو میں خواتین خصوصاً لڑکیوں کوضرور موقع دوں گی۔ اس وقت عائشہ کے کانسپٹ سٹورز پر کام کرنے والے80 افراد میں سے 50 سے زائد خواتین ہیں جن کا کہنا ہے کہ چونکہ ان سٹورز پر کام کرنے والی زیادہ خواتین ہیں تو وہ زیادہ اطمینان محسوس کرتی ہیں ، اگر اسی طرح رجحان پاکستان کے دوسرے سٹورز میں بھی ہو تو خواتین کو کام کرنے کا موقع ملے۔
کورونا وائرس کی وباء سے متعلقہ پابندیوں کے باعث جہاں بہت سے کاروبار متاثر ہوئے اور لاکھوں لوگ بے روزگار ہوئے اس وقت عائشہ نے آن لائن کاروبار کا بھی آغاز کیا۔ عائشہ کے مطابق اگر وہ ریٹیل کا کاروبار چلا سکتی ہیں اور اس شعبے میں دوسری خواتین کے لئے جگہ بنا سکتی ہیں تو یقیناً دوسری خواتین بھی ایسا کر سکتی ہیں اس کے لئے صرف ہمت اور محنت کی ضرورت ہے۔