شہباز اور ترین کی خفیہ ملاقات میں کیا طے پایا؟
اپوزیشن جماعتیں تحریک انصاف کو رخصت کرنے کیلئے کمر کس کر میدان میں اتر چکی ہیں، ایوان کے اندر اور باہر ووٹ پورے کرنے کیلئے کوششیں جاری ہیں، سیاسی جماعتیں اپنے اختلافات بھلا کر ایک پیج پر جمع ہو چکی ہیں۔
اس حوالے سے سیاستدانوں کی اندرون خانہ ملاقاتیں جاری ہیں، چند سال پہلے تک شریف برادران چوہدری برادران کیلئے لچک کا مظاہرہ کرنے کیلئے تیار نہ تھے مگر اب حالات نے انہیں ملنے پر مجبور کر دیا ہے، آج لیگی قیادت خود چل کر چوہدری برادران سے ملاقات کر رہی ہے۔
اسی طرح خبر ہے کہ شہباز شریف اور جہانگیر ترین کی بھی ملاقات ہو چکی ہے۔ تحریک انصاف کے رہنما فیاض الحسن چوہان اس ملاقات کی تصدیق کر چکے ہیں، اس خفیہ ملاقات میں دونوں رہنماؤں کے درمیان کیا طے پایا اس کی تفصیلات سامنے نہیں آ سکیں ہیں۔ جہانگیر ترین گروپ نے اب تک اگرچہ کسی کا ساتھ دینے کا اعلان نہیں کیا ہے تاہم حکمران جماعت تحریک انصاف سے ان کی ناراضی کو واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔
تحریک انصاف حکومت کو رخصت کرنے کیلئے اپوزیشن کی تمام جماعتیں مشترکہ طور پر کوشش کر رہی ہیں، مسلم لیگ کو یہ ٹاسک دیا گیا ہے کہ وفاقی حکومت کو گرانے سے پہلے پنجاب حکومت کو ختم کیا جائے اس سلسلے میں اپوزیشن جماعتوں کے پاس کئی آپشنز موجود ہیں تاہم پہلے مرحلے میں تحریک عدم اعتماد لانے کا فیصلہ ہوا ہے، پنجاب اسمبلی میں چونکہ حکمران جماعت کو ق لیگ اور آزاد اراکین کی وجہ سے برتری حاصل ہے اس لئے ق لیگ اور جہانگیر ترین گروپ کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ ق لیگ اور جہانگیر ترین گروپ اپوزیشن کے ساتھ ہاتھ ملاتا ہے یا اندرون خانہ حکومت کے ساتھ ڈیل کر لیتا ہے۔
ق لیگ اور جہانگیر ترین کی اگر حکومت کے ساتھ ڈیل ہو جاتی ہے تب بھی اپوزیشن جماعتیں حکومت کیلئے مشکلات پیدا کرنے میں کامیاب ہو جائیں گی، کیونکہ اپوزیشن جماعتیں سمجھتی ہیں کہ تحریک انصاف حکومت کی تین سالہ ناقص کارکردگی کی وجہ سے انہیں عوام کی حمایت حاصل ہے، مہنگائی کے ستائے عوام اپوزیشن کا بھرپور ساتھ دیں گے، اپوزیشن جماعتیں یہ بھی سمجھتی ہیں کہ اگر اس موقع پر انہوں نے عوام کے درد کو سمجھنے میں غلطی کر دی تو عوام سمجھنے لگیں گے کہ اپوزیشن جماعتیں حکومت کو موقع فراہم کر رہی ہیں۔
مولانا فضل الرحمان نے سیاسی جماعتوں کے قائدین کو یہ بات باور کرا دی ہے کہ حکومت کے خلاف عوامی لاوا پک چکا ہے ہم نے صرف اسے کیش کرنا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کو اعتماد ہے کہ حکومت کے بیس سے تیس اراکین ان کا ساتھ دیں گے جن میں ق لیگ اور ایم کیو ایم کے رہنما شامل ہوں گے۔
پاکسان کی سیاسی تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ جب تمام سیاسی جماعتیں ایک پیج پر جمع ہو جاتی ہیں تو اس کے مقابلے میں جمہوری حکومت ہو یا آمریت ہو انہیں بہر صورت رخصت ہونا ہوتا ہے۔ پرویز مشرف اس وقت تک اقتدار میں رہے جب تک سیاستدان منتشر رہے مگر جب لندن میں میثاق جمہوریت کے نتیجے میں سیاسی جماعتیں جمع ہو گئیں تو پرویز مشرف کیلئے اقتدار کو بچانا آسان نہ رہا۔
دیکھا جائے تو تحریک انصاف کی حکومت کو ایسی ہی صورتحال کا سامنا ہے، ایک دوسرے کی شدید مخالف سیاسی جماعتیں متحد ہو چکی ہیں، ان کا یک نکاتی ایجنڈا تحریک انصاف حکومت کی رخصتی ہے۔ اپوزیشن کے مقابلے میں تحریک انصاف حکومت کی کوئی تیاری دکھائی نہیں دیتی ہے سوائے اس کے کہ انہیں کوئی نادیدہ قوت بچا لے۔
کسی بھی حکومت کی کارکردگی ہی اسے عوام کی نظروں میں مقبول بناتی ہے اس حوالے سے دیکھا جائے تو تحریک انصاف کی کارکردگی کو تسلی بخش قرار نہیں دیا جا سکتا ہے، المیہ یہ ہے کہ تحریک انصاف نے اپنے دور اقتدار میں کارکردگی بہتر بنانے کی بجائے احتساب پر زور دیا ہے۔
احتساب کے عمل سے تحریک انصاف کو دو طرح کا نقصان ہوا ہے ایک تو اپوزیشن جماعتوں کے رہنما گرفتاری اور تفتیش کے بعد عدالتوں سے رہا ہو چکے ہیں یوں تحریک انصاف کی سیاسی مقبولیت میں کمی واقع ہوئی ہے کیونکہ عوام اب یہ سوال کرنے لگے ہیں کہ اگر کرپشن کی گئی ہے تو پھر انہیں سزائیں کیوں نہیں دی گئیں، دوسرا بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ جو وقت کارکردگی کو بہتر بنانے میں لگنا چاہئے تھا وہ اپوزیشن رہنماؤں کو پکڑنے میں لگا دیا گیا۔
اسی طرح عوام کے ذہن میں یہ بات بھی راسخ ہو چکی ہے کہ تحریک انصاف حکومت کا ہوم ورک مکمل نہیں تھا حکومت میں آنے کے بعد انہیں ادراک ہوا کہ ملک کے حقیقی مسائل کیا ہیں۔ ان وجوہات کی بنا پر عوام کی غالب اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ اگر تحریک انصاف حکومت کو مزید وقت مل گیا تو حالات سنگین ہو جائیں گے۔ ان حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کی تحریک کے کامیابی کے امکانات زیادہ ہیں۔