پاکستانی طلباء میں سوال کرنے کا رجحان کم کیوں؟
ہمیں رٹہ سسٹم کی بجائے طلباء کی ذہنی صلاحیتوں کے مطابق انہیں تعلیم فراہم کرنی چاہیے تاکہ طلباء میں سوال کرنے کی صلاحیت پیدا ہو ، کیونکہ جب طالب علم سوال کرتا ہے تو وہ تعلیم یافتہ ہے اور ہم اسے مزید تعلیم دے رہے ہیں پروفیسر ڈاکٹر سید محمد علی
کم بجٹ کے باوجود قائد اعظم یونیورسٹی کا شمار دنیا کی پہلی 5سو یونیورسٹیوں میں ہوتا ہے ،اگر بجٹ میں اضافہ کیا جائے تو دنیا کی پہلی سو یونیورسٹیوں میں شامل ہو سکتے ہیں، وائس چانسلر قائد اعظم یونیورسٹی
قائد اعظم یونیورسٹی کا شمار پاکستان کی یونیورسٹیوں میں پہلے نمبر پر ہوتا ہے ،پروفیسر ڈاکٹر سید محمد علی اس کے وائس چانسلر ہیں ،جن کا ٹینیور چار سال پر مشتمل ہے ،پروفیسر ڈاکٹر محمد علی پاکستان کی پچاس سے زائد یونیورسٹیوں اور اداروں کے چیئرمین سینڈیکیٹ ، ممبر بورڈ آف گورنرز اور ممبر سلیکشن بورڈ ہیں، جس میں پاکستان سول ایوارڈزکابینہ ڈویژن ، اسلام آباد کی سفارشات کے لئے آرٹس اینڈ لٹریچر برائے ایوارڈز کمیٹی برائے ممبر ہیں۔ وہ وائس چانسلرز کی تقرری کے لئے سرچ کمیٹیوں کے ممبر، وزارت تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیت کے سلیکشن بورڈ کے ممبر ، ایچ ای سی اور بورڈ آف سی ڈی اے کے ممبر ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر محمد علی 2019ء میں کمیٹی برائے انتخاب آل وائس چانسلرز آف پاکستان کے چیئرمین منتخب ہوئے۔ پروفیسر انہیں قائداعظم یونیورسٹی کی ذمہ داری ایک ایسے وقت سونپی گئی جب یونیورسٹی کی انتظامیہ کو طلباء تنظیموں کے جانب سے ناخوشگوار واقعات اور یونیورسٹی کی بندش جیسے چیلنجز کا سامنا تھا، پروفیسر ڈاکٹر سید محمد علی ماہر تعلیم ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہترین منتظم بھی ہیں، وہ اس سے پہلے اپنی صلاحتیں گورنمنٹ کالج یو نیورسٹی فیصل آباد میں پیش کر چکے ہیں، جس میں اساتذہ و طلباء کی تعداد قائد اعظم یونیورسٹی کی نسبت کئی گنا زیادہ ہے، پروفیسر ڈاکٹر سید محمد علی نے قائد اعظم یونیورسٹی کے مسئلے کو نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ حل کر دیا اس کا بین ثبوت یہ ہے کہ ان کے دوسالوں کے دوران کسی قسم کا کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آیا اور نہ ہی یونیورسٹی کی بندش کی نوبت آئی۔
پروفیسر ڈاکٹر سید محمد علی کہتے ہیں کہ انہوں نے یونیورسٹی کے انتظامات سنبھالتے ہی محسوس کیا کہ یونیورسٹی کو ایک بہترین ٹیم کی ضرورت ہے سو ٹیم کی تشکیل کرکے یونیورسٹی کے سارے معاملات افہام و تفہیم حل کئے گئے ۔ پروفیسر ڈاکٹر سید محمد علی سے تعلیم کے حوالے سے تفصیلی گفتگو ذیل کی سطور میں پیش کی جارہی ہے۔
سوال: تعلیمی میدان میں قائد اعظم یونیورسٹی کا شمار پاکستان میں پہلے نمبر پر ہوتا ہے لیکن عالمی رینکنگ میں ہماری یونیورسٹیوں کا شمار آخری نمبروں پر ہوتا ہے‘ اس کی وجہ کیا ہے؟
جواب: قائد اعظم یونیورسٹی کا شمار دنیا کی پہلی پانچ سو یونیورسٹیوں میں ہوتا ہے یہ ہمارے لئے خوش آئند ہے، حالانکہ ہمیں دنیا کی ٹاپ سو یونیورسٹیوں میں شامل ہونا چاہیے، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارا بجٹ دنیا کی پہلی تیس ہزار یونیورسٹیوں سے بھی کم ہے، قائد اعظم یونیورسٹی کا بجٹ بیس ہزار نمبر پر بھی نہیں آتا، اس کے باوجود ہم دنیا کی پہلی پانچ سو یونیورسٹیوں میں شامل ہیں، سو ہم ویلیو ٹو ڈالر کے اعتبار سے بہت اچھی پروڈیوس کر رہے ہیں، اس میں ہمیں حکومت کی فنڈنگ اور سرپرستی کی ضرورت ہے۔ اگر ہمارے بجٹ میں اضافہ ہو تو عالمی رینکنگ میں مزید بہتری آسکتی ہے کیونکہ ہمارا ٹوٹل بجٹ ڈھائی ارب روپے ہے جو ڈالرز میں دو ڈھائی ملین ڈالرز ہو گا ‘ حالانکہ دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں کا بجٹ اربوں ڈالرز میں ہوتا ہے، ہم ٹوٹل بجٹ کا 98فیصد رینکنگ گرانٹ یعنی بجلی کے بلز، تنخواہوں اور ٹرانسپورٹ وغیرہ پر خرچ کر دیتے ہیں، اس لیے اگر گورنمنٹ شعبہ تعلیم بالخصوص یونیورسٹیوں پر خرچ کرے تو میں گارنٹی دیتا ہوں کہ ہماری یونیورسٹیاں دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں میں شمار ہوں گی۔
سوال: کہا جاتا ہے کہ ہماری یونیورسٹیاں طلباء کی فیسوں پر چل رہی ہیں، کیا اس طرح سے تعلیم بہت حد تک مہنگی نہیں ہو جاتی؟
جواب: قائد اعظم یونیورسٹی کا جو فیس سٹرکچر ہے وہ اوسطاً پچاس ہزار روپے فی سمسٹر ہے جو لگ بھگ 300ڈالر فی سمسٹر بنتا ہے جب کہ ہمارا ایک طالب علم پر جو خرچ آتا ہے وہ تقریباً ڈھائی لاکھ روپے ہے، اس اعتبار سے دیکھیں تو کم از کم قائد اعظم یونیورسٹی طلباء کی فیسوں پر نہیں چل رہی ہے۔ ہمارے پاس 10ہزار طالب علم ہیں اور ہمارا ڈھائی ارب روپے کا بجٹ ہے، اس اعتبار سے سیدھی سے بات ہے کہ ڈھائی لاکھ روپے ہمارا خرچ آتا ہے اور زیادہ سے زیادہ ایک لاکھ روپے ہم فیس وصول کرتے ہیں، اگر ہم اپنے پڑوسی ملک بھارت کی بات کریں تو وہاں پر ان کی گورنمنٹ طالب علموں کو جو بجٹ دے رہی ہے وہ سالانہ ایک ہزار ڈالر کے حساب سے دے رہی ہے ۔
اس لحاظ سے اگر طلباء کے لیے 50ہزار روپے فی سمسٹر زیادہ ہے تو ہمارے پاس مستحق طلباء کے لیے سکالر شپس ہیں۔ اور مختلف ڈیپارٹمنٹس میں اس قدر اسکالر شپس ہیں کہ قابل طلباء کم ہیں اور سکالر شپس زیادہ ہوتی ہیں ،گزشتہ سال بھی ہمیں ایک سو پچاس سکالر شپس واپس کرنی پڑی کیونکہ ہم نے سکالر شپس کیلئے جو معیار مقرر کر رکھا طلباء اس پر پورا نہیں اتر رہے تھے، یہ سکالر شپس موجودہ حکومت کے احساس پروگرام کی طرف سے ان طلباء کو دی جا رہی ہیں جو طالب علم یونیورسٹی کی فیس افورڈ نہیں کر سکتے لیکن اگر وہ طالب علم جو افورڈ کر سکتے ہیں اور سکالر شپس کے لئے بنائے گئے ہمارے معیار پر بھی پورا نہیں اتر رہے وہ چاہیں کہ ہمیں بھی سکالرشپ مل جائے تو یہ ذرا مشکل ہے۔
سوال:کورونا وائرس نے زندگی کے ہر شعبہ کو متاثر کیا ‘ تعلیم کا شعبہ بھی اس سے متاثر ہوا، اس دوران یونیورسٹی نے متبادل کے طور پر آئن لائن تعلیمی سسٹم متعارف کروایا، یہ آن لائن سسٹم کس حد تک کامیاب رہا؟
جواب: جب کورونا وائرس آیا تو طلباء کو تعلیم کی سہولیات فراہم کرنے کے لیے آن لائن کے علاوہ ہمارے پاس کوئی آپشن نہیں تھا کیونکہ اگر آن لائن سسٹم پر تعلیم کو منتقل نہ کرتے تو پھر کورونا کے ایام تک تعلیم پر سٹاپ لگانا پڑتا۔ ہم نے تعلیم پر سٹاپ لگانے کی بجائے فیصلہ کیا کہ طلباء کو آن لائن تعلیم فراہم کی جائے، چند ماہ اور دس دن کا گیپ لیا اور اس دوران آن لائن تعلیم فراہم کرنے کی تیاری کی، یہ درست ہے کہ ہمارے ماحول میں آن لائن تعلیم کا تجربہ آئیڈیل نہیں ہے لیکن کورونا کی صورتحال میں طلباء کا تعلیمی نقصان نہ ہونے سے بچانے کے لیے اس اقدام کو سراہا جا سکتا ہے۔ لیکن اب ہم نے مکمل طور پر یونیورسٹی کو کھول دیا ہے۔
سوال: یونیورسٹیوں میں آنے والے طلباء ، بالعموم روایتی اسکولوں یعنی رٹہ سسٹم سے آتے ہیں ، کیا ایسے طلباء یونیورسٹی کی تعلیم کے حصول کیلئے مشکلات کا باعث نہیں بنتے، کیا ایسے طلباء یونیورسٹیوں کے معیار پر پورا اترتے ہیں؟
جواب: یہ سوال نہایت اہمیت کاحامل ہے، اس بارے میں قومی سطح پر سوچا جانا چاہیے اور اس کے حل کی طرف توجہ دی جانی چاہیے کیونکہ رٹہ سسٹم اعلیٰ تعلیم کے حصول کیلئے زیادہ مددگار نہیں ہے، دوسرا لینگوئج کا مسئلہ بھی ہے کہ طلباء کو اسکول و کالج میں تعلیم کس زبان میں دینی چاہیے ۔ تیسرا جو بہت اہم ہے کہ یونیورسٹی سے پہلے تو طلباء تقسیم ہوتے ہیں، کوئی میٹرک سسٹم سے تعلیم حاصل کر کے آیا ہوتا ہے ، کوئی او لیول، اے لیول، ایف ایس سی وغیرہ کر کے آیا ہوتا ہے لیکن یونیورسٹی میں سارے اکٹھے آتے ہیں ، جب ایسے طلباء پہلے سمسٹر میں آتے ہیں تو پروفیسر انہیں برابری کی بنیاد پر پڑھارہا ہوتاہے۔ یوں بنیادی سمجھ بوجھ میں فرق ہوتا ہے، اس لیے ہمیں رٹہ سسٹم کی بجائے طلباء کی ذہنی صلاحیتوں کے مطابق انہیں تعلیم فراہم کرنی چاہیے تاکہ طلباء میں سوال کرنے کی صلاحیت پیدا ہو، کیونکہ جب طالب علم سوال کرتا ہے تو وہ تعلیم یافتہ ہے اور ہم اسے مزید تعلیم دے رہے ہیں۔
ہم اپنے ٹیچنگ سسٹم میں ابھی تک یہ طے ہی نہیں کر پائے کہ تعلیم کسے کہتے ہیں؟ اس سلسلے میں ہمیں بہت کام کرنے کی ضرورت ہے اور پہلے مرحلے پر قابل ٹیچر تیار کرنے پر زور دینا چاہیے جو طلباء کے سوالوں کے جواب دے سکیں۔ جب کہ حکومتی سطح پر اس کے لیے لائحہ عمل تشکیل دینے کی ضرورت ہے کیونکہ پرائمری ،مڈل اور ہائی اسکولوںکے سیکرٹریز علیحدہ علیحدہ علیحدہ ہوتے ہیں، اس طرح آپس میں رابطہ نہ ہونے کی وجہ سے متعدد مسائل جنم لے رہے ہیں، ہمیں ایسے لائحہ عمل کی ضرورت ہے جو اسکولوں سے لے کر یونیورسٹی تک ایک ہی ہو۔
سوال: تحریک انصاف کی حکومت نے تعلیمی اصلاحات کو اپنی انتخابی مہم کا حصہ بنایا ، تعلیم کو اپنی اولین ترجیح قرار دیا، کیا تحریک انصاف کے حکومت میں آ جانے کے بعد وہ اقدامات عملی طور پر بھی دکھائی دے رہے ہیں؟
جواب: اس حوالے سے حکومت کی بہت اہم پیشرفت یکساں نصاب کیلئے کوشش ہے، اگر یہ پایہ تکمیل کو پہنچ جاتا ہے تو یہ حکومت کی بہت بڑی کامیابی ہو گی، حکومت کے اس اقدام سے طلباء کو تعلیم کے یکساں مواقع میسر ہوں گے، مدارس کو وزارت تعلیم کے ذریعے قومی ڈھانچے میں لانا معمولی بات نہیں ہے۔ جہاں تک فنڈنگ کی بات ہے تو ملک کے موجودہ معاشی حالات سے صرف تعلیم کو ہی نقصان نہیں پہنچا ہے بلکہ ہر شعبہ زندگی متاثر ہوا ہے، حالانکہ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ اگر آپ نے تعلیمی معیار کو بہتر کرنا ہے تو اس سلسلے میں انوسٹمنٹ کو بڑھانا ہو گا ہم امید کرتے ہیں کہ اگر ملکی معاشی حالات میں بہتری آئی تو حکومت ضرور اس طرف توجہ دے دی۔