رواں سال مہنگائی مزید بڑھ جائے گی
اقتدار میں آنے سے پہلے تحریک انصاف کا نعرہ بڑا خوشنما تھا کیوں کہ امیروں سے ٹیکس وصول کر کے غریبوں پر خرچ کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا، یہی وجہ تھی کہ جب تحریک انصاف حکومت کے ابتدائی مہینوں میں ڈالر کی قیمت بڑھنے لگی اور اس کے نتیجے میں مہنگائی میں اضافہ ہوا تو وزیر اعظم عمران خان سمیت پارٹی کے دیگر رہنماؤں نے مؤقف اختیار کیا کہ سابق حکومتوں نے ڈالر کو مصنوعی طریقے سے کنٹرول کیا ہوا تھا جس کی وجہ سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھ گیا تھا اب تحریک انصاف کی حکومت نے ڈالر کو آزاد چھوڑ دیا ہے تاکہ مارکیٹ ویلیو کے مطابق اس کی درست قیمت کا تعین ہو سکے۔
اس کے ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ عوام کیلئے چند ماہ مشکل کے ہوں گے اس کے بعد ڈالر نیچے آئے گا اور مہنگائی بھی کم ہو جائے گی۔ عوام کی اکثریت اس یقین دہانی پر اس لئے خوش تھی کہ اگر ان کی قربانی سے برسوں کے مسائل ہونے جا رہے ہیں تو وہ کچھ مدت کیلئے مہنگائی کو برداشت کر لیں گے، مگر تین سال گزرنے کے باوجود تحریک انصاف حکومت کی طرف سے کیا گیا وعدہ ایفاء نہ ہو سکا اب مؤقف اختیار کیا جا رہا ہے کہ کورونا کی وجہ سے مسائل بڑھ گئے ہیں اگر کورونا نہ آتا تو حکومت مسائل پر قابو پا لیتی۔ حکومت کی طرف سے نیا عذر ایسے وقت میں یپش کیا جا رہا ہے کہ اب عوام کی اکثریت تحریک انصاف کی بات پر یقین کرنے کیلئے تیار نہیں ہے کیونکہ حکومت کے ہر وعدے کے بعد مہنگائی کا طوفان آیا ہے۔ جن مسائل کے جلد حل ہونے کا وعدہ کیا گیا تھا ان مسائل میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے، معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستان کے مسائل جلد حل ہونے والے نہیں ہیں، تحریک انصاف کے بعد آئندہ حکومت کو بھی معاشی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔
شنید ہے کہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے آئندہ وفاقی بجٹ میں وفاقی ٹیکس محصولات میں تقریباً 11 کھرب 55 ارب روپے کا اضافے کا مطالبہ کیا ہے، جس میں 4 کھرب 30ارب روپے کے اضافی ٹیکس اقدامات بھی شامل ہیں۔ حکومت پیٹرولیم مصنوعات کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کو جزوی طور پر قابو میں رکھنے کی کوششوں میں نمایاں کمی کی وجہ سے رواں مالی سال کے بجٹ کے 610 ارب روپے کے مقابلے میں پیٹرولیم لیوی کی وجہ سے بہت کم وصولی کا ہدف مقرر کرے گی۔ یہ آئی ایم ایف کے لازمی آرٹیکل 4 کی مشاورت کے ساتھ اس کی توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف)کا چھٹے جائزے کا حصہ ہے جس کے تحت پاکستان نے اسٹرکچرل بینچ مارکس، انڈیکٹو اہداف اور کارکردگی کے معیار کے تحت اہداف کی ایک سلسلے کو بڑی تاخیر کے ساتھ مس یا مکمل کیا۔
آئی ایم ایف کی رپورٹ کے مطابق فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو مالی سال 23-2022 کے دوران 72 کھرب 55 ارب روپے اکٹھا کرنے ہیں، جو کہ موجودہ مالی سال کے 61 کھرب روپے کے نظرثانی شدہ ہدف کے مقابلے میں 11 کھرب 55 ارب روپے کا اضافہ ظاہر کرتا ہے۔جی ڈی پی میں چار فیصد نمو کی مد میں تقریباً 7 کھرب 30 ارب روپے کی توسیع کے ساتھ مہنگائی 8 فیصد رہنے کی توقع ہے۔ بقیہ 4 کھرب 30 ارب روپے ٹیکس اقدامات بشمول ذاتی انکم ٹیکس، زیادہ ٹیکس کی شرح اور ٹیکس میں کم چھوٹ کے ذریعے پیدا کیے جائیں گے۔اس طرح ایف بی آر کا ٹیکس ٹو ریونیو اگلے سال بڑھ کر 11.8 فیصد ہو جائے گا جبکہ رواں سال کے دوران اس کا تخمینہ 11.2 فیصد لگایا گیا تھا۔
اس میں سے جی ڈی پی کا تقریباً 0.4 فیصد فیڈرل ایکسائز اور 0.2 فیصد جنرل سیلز ٹیکس سے آئے گا۔ ایف بی آر کی آمدن میں 5 کھرب 20 ارب روپے کا بڑا اضافہ جنرل سیلز ٹیکس سے متوقع ہے جس کے لیے آئندہ بجٹ میں اس سال کے 27 کھرب 80 ارب روپے کے مقابلے میں 33 کھرب روپے رکھے جائیں گے۔آئی ایم ایف اور پاکستانی حکام نے رواں سال کے دوران پیٹرولیم لیوی کے ہدف کو 6 کھرب 7 ارب روپے سے کم کر کے 3 کھرب 56 ارب روپے کر دیا ہے کیونکہ مالی سال کی پہلی ششماہی کے دوران اس کی شرح کم رہی۔ بین الاقوامی سطح پر تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے پیش نظر آئندہ سال پیٹرولیم لیوی کا ہدف 406 ارب روپے رکھا گیا ہے۔
اسی طرح آئندہ مالی سال کے لیے نان ٹیکس ریونیو کا ہدف 15 کھرب 80 ارب روپے رکھا جائے گا جو رواں سال کے نظرثانی شدہ 13 کھرب 80 ارب روپے کے ہدف کے مقابلے میں تقریباً 200 ارب روپے زیادہ ہے۔اس کے علاوہ ڈیٹ سروسنگ آئندہ سال تقریباً 4 کھرب 53 ارب روپے سے بڑھ کر 35 کھرب 23 ارب روپے تک جانے کا امکان ہے جو کہ موجودہ سال کی 30 کھرب 7 ارب روپے کی سود کی ادائیگی کے مقابلے میں جی ڈی پی کا تقریباً ایک فیصد زیادہ ہے۔
دفاعی اخراجات اس سال 14 کھرب روپے سے ایک کھرب 86 ارب روپے بڑھ کر 15 کھرب 86 ارب روپے ہونے کا امکان ہے جبکہ جی ڈی پی کے فیصد کے حساب سے سود کی ادائیگی 5.7 فیصد پر برقرار رہے گی۔ آئی ایم ایف ایک نیا لالچ دے کر ہمارے مسائل بڑھاتا جا رہا ہے اور حکومت آنکھیں بند کر کے آئی ایم ایف کی بات تسلیم کر رہی ہے اگر یہی صورتحال مزید کچھ عرصہ تک برقرار رہی تو عوام کی قوت خرید جواب دے دی گی۔ امیروں سے ٹیکس لے کر غریبوں پر خرچ کرنا تو درکنار الٹا کم آمدن طبقہ کیلئے مشکلات بڑھ چکی ہیں اور ہر آنے والا دن کم آمدن طبقہ کی مشکلات میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔