نواز شریف ’’ٹاکا سوبو‘‘ کا شکار ہو گئے
لاہورہائیکورٹ میں جمع کرائی گئی میڈیکل رپورٹ میں تصدیق کی گئی کہ ڈاکٹروں نے نوازشریف کو سفر سے منع کر رکھا ہے
سفر کی صورت میں سابق وزیراعظم کو ’’ٹاکا سوبو‘‘ نامی بیماری لاحق ہونے کا خدشہ،سوشل میڈیا پر اس بیماری پر مختلف تبصرے
مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں نواز شریف پاکستان کی سیاست میں سب سے زیادہ زیر بحث شخصیت ہیں، وہ جب پاکستان میں تھے تو حکومت کی توپوں کا رخ انہی کی طرف تھا جب وہ جیل میں تھے تب بھی ان کی پل پل کی خبریں میڈیا پر آتی رہیں یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ میاں نواز شریف حکومت کے اعصاب پر سوار رہے۔
اب جبکہ وہ طویل عرصہ سے اپنی بیماری کے علاج کے سلسلہ میں لندن میں ہیں تو تحریک انصاف کی ساری توجہ انہیں واپس لانے پر صرف ہو رہی ہے، حالانکہ یہ حقیقت ہے کہ میاں نواز شریف کو ملک سے باہر بھیجوانے والی تحریک انصاف کی حکومت ہی ہے یوں ساری ذمہ داری وزیر اعظم عمران خان اور ان کی حکومت پر عائد ہوتی ہے مگر وہ کمال مہارت سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ میاں نواز شریف کو کوئی بیماری نہیں ہے اور یہ کہ وہ ملک واپس آنے سے راہ فرار اختیار کر رہے ہیں اگر اس مفروضے کو ایک لمحہ کیلیے درست تسلیم کر لیا جائے تو ادنیٰ عقل کا مالک شخص بھی یہی سوال کرے گا کہ میاں نواز شریف کو ملک سے باہر کس نے بھیجاتھا؟
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میاں نواز شریف کی ذات اور ان کے ماضی کو بیان کرنے کے علاوہ تحریک انصاف کے پاس پیش کرنے کیلئے کچھ نہیں ہے۔نواز شریف کی واپسی کے حوالے نئی خبر سامنے آئی ہے وہ یہ کہ مسلم لیگ ن کے قائد اور سابق وزیراعظم نواز شریف سے اندرون خانہ ’’ڈیل‘‘ اور ان کی ملک واپسی کی باتیں گزشتہ کچھ دنوں سے ہوتی رہی ہیں لیکن افواہیں اس وقت دم توڑ گئیں جب نواز شریف کے وکلاء نے لاہور ہائیکورٹ میں ان کی نئی میڈیکل رپورٹ جمع کرائی۔
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ڈاکٹروں نے نوازشریف کو سفر نہ کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ علاج کے بغیر ایسی کسی سرگرمی سے ان کی جان کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ یہ رپورٹ واشنگٹن ایڈوینٹسٹ ہیلتھ کیئر وائٹ اوک میڈیکل سنٹر کے ڈائریکٹر انٹروینشنل کارڈیالوجی ڈاکٹر فیاض شال نے تیار کی ہے ۔
رپورٹ میں اس امر کی نشاندہی کی گئی ہے کہ نوازشریف کی طبیعت میں اس وقت بہتری دراصل صحت مند خوراک اور ورزش کو معمول بنانے کے باعث آئی ہے تاہم اُن کی بیماری کی صورت حال جوں کی توں ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نوازشریف بیگم کلثوم نواز کے انتقال کے بعد شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہیں اور اُن کے علاج کے بغیر پاکستان واپس جانے سے حالت بگڑ سکتی ہے۔
اس رپورٹ میں ڈاکٹر فیاض شال نے یہ بھی لکھا کہ ذہنی تناؤکے باعث نواز شریف ’’ٹاکا سوبو‘‘ نامی بیماری کا شکار ہو سکتے ہیں جو دل کی بیماری ہے۔ نواز شریف کی میڈیکل رپورٹ میں ’’ ٹاکا سوبو‘‘ کا ذکر ہونے کے بعد سوشل میڈیا پر اس بیماری کے حوالے سے کافی چرچے ہوئے، بیشتر صارفین نے پہلی بار اس بیماری کا نام سنا اور وہ اس بیماری کے بارے میں جاننے کی کھوج میں رہے۔
طبی ماہر ڈاکٹر پرویز چوہدری(ستارہ امتیاز) کا کہنا ہے کہ ٹاکا سوبوکو ایک ایسی انتہائی غیر معمولی بیماری کے نام پر جانا جاتا ہے جس کی بظاہر کوئی وجہ معلوم نہ ہو۔ یعنی خون کی رپورٹس میں کسی بیماری کی علامات تو نہ ہوں لیکن دل کے پٹھے کمزور ہونے کی وجہ سے اچانک دل کا عارضہ لاحق ہو سکتا ہے، ایسا عام طور پر انتہائی ذہنی دباؤ یا صدمے کی کیفیت کی وجہ سے ہو سکتا ہے۔انہوں نے بتایا کہ یہ نام جاپانی زبان کا ہے۔
نوازشریف کی بیماری سنگین نوعیت کی ہے یا معمولی یہ ایک الگ بحث ہے تاہم عدالت میں جمع کرائی گئی میڈیکل رپورٹ سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ نوازشریف کی مستقبل قریب میں ملک واپسی کا کوئی امکان نہیں ہے ، اس حوالے سے چہ مگوئیاں صرف افواہیں ہی ثابت ہوئی ہیں۔ بظاہر حکومت کی طرف سے بھی نواز شریف کی میڈیکل رپورٹ پر ردعمل سامنے آیا ہے، وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے رپورٹ پر تنقید کرتے ہوئے اس جعلی قرار دیا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ میڈیکل رپورٹ پاکستان کے قانونی نظام کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے، عدلیہ اس معاملے کا نوٹس لے۔
اسی طرح وزیر اعظم کے معاون خصوصی شہباز گل نے بھی اس میڈیکل رپورٹ پر نوازشریف کو آڑے ہاتھوں لیا لیکن حقیقت ہے کہ نوازشریف کی واپسی کا امکان معدوم ہونے پر حکومتی حلقوں نے سکھ کا سانس لیا ہے جنہیں پہلے نوازشریف کی واپسی کی خبروں پر پریشان تھے کیونکہ نوازشریف کی واپسی سے اپوزیشن خصوصاً مسلم لیگ ن کی سیاسی سرگرمیوں میں تیزی آجاتی اور حکومت کے لئے مشکلات مزید بڑھ جاتیں جو ملک کے ابتر معاشی حالات کے باعث پہلے ہی دبائو کا شکار ہے۔
ایسی صورت حال میں حکومت کبھی بھی یہ نہیں چاہے گی کہ اس کے لئے کوئی نئی مشکل پیدا ہو ، چنانچہ نوازشریف کا لندن میں ہی رہنا حکومت کے مفاد میں ہے ، حکومتی وزراء کے نوازشریف کو مقدمات کا سامنا کرنے کے لئے واپس لانے کے بیانات بھی محض مسلم لیگ ن کو دبائو میں رکھنے کے ہتھکنڈے ہیں۔ اس پس منظر کے بعد کہا جا سکتا ہے کہ تحریک انصاف کی باقی ماندہ مدت بھی انہی بکھیڑوں میں گزر جائے گی اور جب 2023ء میں اس کی آئینی مدت پوری ہو جائے گی تو اس کے پاس کوئی ایسا منصوبہ نہیں ہو گا جسے عوام کے سامنے پیش کر کے ان کی حمایت حاصل کی جا سکے۔