شہری سماج ڈراموں کی ترجیح بن گیا!

گائوں دیہات میں بھی اچھی کہانیاں موجود ہیں مگر ہمارے رائٹرز کی ترجیح نہیں ہے

پاکستان میں سرکاری ٹی وی کے ساتھ ساتھ درجن بھر نجی ٹی وی چینلز پر ڈرامے دکھائی جاتے ہیں، مگر ان ڈراموں میں سماج کا وہ چہرہ دکھایا جاتا ہے جو سماج کی 10فیصد کی نمائندگی کرتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ رائٹر وہی تحریر کرتا ہے جو سماج کے اندر موجود ہوتا ہے رائٹر تو اسے الفاظ کی شکل دیتا ہے جسے فلما کر لوگوں کے سامنے پیش کر دیا جاتا ہے لیکن گذشتہ تین دہائیوں سے پاکستان میں جو ڈرامے دکھائے جا رہے ہیں ، ان کے بارے میں عمومی تاثر یہ ہے کہ بار بار ایک ہی موضوع کو مختلف انداز میں پیش کیا جا رہا ہے۔

لڑکے لڑکی کی لوّ سٹوری اور شادی کے بعد ساس بہو کے جھگڑے ۔ اس کے علاوہ کچھ نہیں دکھایا جا رہا ۔ ڈراموں میں پرتعیش زندگی، چم چماتی گاڑیاں اور زرق برق ملبوسات دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے جیسے اس ملک میں کوئی غریب موجود ہی نہیں ہے اگر غریب موجود ہوتے تو ان کا لائف سٹائل بھی ڈراموں میں پیش کیا جاتا۔

شوبز سے وابستہ ایک صاحب نے مجھے بتایا کہ ایک معروف نجی چینل نے کراچی کے اندر ایک پلازہ تیار کیا ہے جس کے زمینی دو فلور کو پروڈکشن کیلئے مختص کیا گیا ہے جبکہ اس کی بالائی منزلوں پر درجنوں عالی شان اپارٹمنس بنائے گئے ہیں، ان پارٹمنس کو مختلف ڈراموں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ ان صاحب نے بتایا کہ کس زمانے میں ایک ڈرامہ کئی ماہ یا سال میں مکمل ہوتا تھا مگر اب ایک ماہ سے کم عرصہ میں ڈرامے کی 25 سے 30 اقساط مکمل ہو جاتی ہے۔

سکرپٹ فائنل ہو جانے کے بعد فنکاروں کو پروڈکشن ہاؤس بلا لیا جاتا ہے اور کنڑیکٹ فائنل ہونے کے بعد فنکاروں سے کہا جاتا ہے کہ ایک ماہ تک آپ نے یہیں پر رہنا ہے آپ کی رہائش اور میڈیکل کا بندوبست کر دیا گیا ہے اور کنٹریکٹ کا چیک بھی بنا کر ایڈمن میں جمع کرا دیا جاتا ہے کہ جونہی ڈرامہ فائنل ہو جائے چیک متعلقہ اداکار کے حوالے کر دیا جائے یوں ڈرامہ ایک ماہ میں مکمل ہو جاتا ہے۔ اس عجلت میں بنائے گئے ڈرامے کتنے معیاری ہوں گے اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

اسی طرح جتنے ڈرامے پیش کیے جا رہے ہیں وہ شہری زندگی پر مبنی ہیں، ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے گائوں دیہات میں زندگی جمود کا شکار ہے اور ان کی سماج میں کوئی حیثیت نہیں ہے حالانکہ پاکستان کی کل آبادی کا 60فیصد حصہ گائوں ، دیہات میں مقیم ہے ، وہاں پر بھی کروڑوں لوگ زندگی کی گاڑی کو کھینچ رہے ہیں، گائوں دیہات میں بھی اچھی کہانیاں موجود ہیں مگر ہمارے رائٹرز کی ترجیح نہیں ہے۔

گائوں کی زندگی فطرت کے بہت قریب ہے تاہم گائوں کی زندگی کو اس خیال سے ڈرامہ میں پیش نہیں کیا جاتا کہ جس لباس اور حلیے میں شہر کی لڑکیوں کو دکھایا جا سکتا ہے گاؤں کے لوگوں کو دکھایا نہیں جا سکتا ہے۔ یہ پروڈیوسر کا خود ساختہ اصول ہے کہ ڈرامے میں جس قدر نیم عریانی دکھائی جائے گی ناظرین اسے پسند کریں گے، یہ سراسر غلط ہے۔ گائوں دیہات کی زندگی پر مبنی اچھا ڈرامہ نیم عریانی کی نسبت زیادہ پسند کیا جا ئے گا اس کی بنیادی طور پرتین وجوہات ہیں۔

(ا)۔ گائوں دیہات کی اکثریت شہروں میں آباد ہو گئی ہے، ان کے بچے شہروں میں پروان چڑھ رہے ہیں تو والدین چاہتے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو گائوں کی زندگی کے بارے میں آگاہی فراہم کریں۔

(۲)۔ گائوں کی زندگی فطرت کے بہت قریب ہے، وہاں کے مناظر شہری آبادی میں کم دیکھنے کو ملتے ہیں سو ناظرین ایسے مناظر کو پسند کریں گے۔

(۳)۔ نوجوان نسل کا یہ حق ہے کہ اسے ہمارے سماج کے حقیقی چہرے کا علم ہو۔ رہی یہ بات کہ ناظرین کیا پسند کرتے ہیں اور کیا پسند نہیں کرتے تو بخوبی جان لینا چاہیے کہ ڈراموں سے نوجوان نسل اپنے مستقبل کا تعین کرتی ہے، اگر ہم نے ڈراموں میں نیم عریانی کو فروغ دیا تو ہماری نوجوان نسل راستے سے بھٹک جائے گی جس کی ذمہ داری اہل دانش اور ڈرامہ ڑائٹرز پر عائد ہو گی جنہوں نے چند ٹکوں کی خاطر اپنے مستقبل کو داؤ پر لگا دیا۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button