عمران خان کے تین اہم منصوبے

تحریک انصاف کی حکومت بظاہر بحرانوں کی زد میں ہے ، مہنگائی کو جواز بنا کر اپوزیشن حکومت کے خوب لتے لے رہی ہے، یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ اپوزیشن نے حکومت کو کٹہرے میں کھڑا کیا ہوا ہے، اور حکومت کے پاس تسلی بخش کوئی جواب دینے کچھ نہیں ہے ، مگر تمام تر بحرانوں کے باوجود تحریک انصاف کی حکومت کے کچھ کام ایسے ہیں جنہیں قابلِ تقلید اور مثالی کہا جا سکتا ہے۔

وزیر اعظم عمر ان خان نے افغان مسئلے کا ٹھوس حل نکالنے کے لیے امریکہ اور مغربی دنیا کے ساتھ مضبوط کیس لڑا ہے، جس پرائی جنگ کو ہم طویل عرصہ تک اپنی جنگ کہہ کر اس کا حصہ بنے رہے ہیں اور ہمیں بے پناہ جانی و مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے اس پرائی جنگ سے پاکستان کی جان چھڑائی ہے۔ یقیناً یہ بہترین سفارت کاری اور خارجہ پالیسی کی مرہون منت ہی ممکن ہو پایا ہے۔

اسی طرح اسلاموفوبیا کے حوالے سے وزیر اعظم عمران خان نے مغربی دنیا کو باور کرایا کہ اگر دنیا اسلاموفوبیا سے باز نہ آئی تو شرانگیزی پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔ وزیر اعظم عمران خان طیب ایردوان اور مہاتیر محمد جیسے دیگر مسلمان رہنمائوں کی کاوشوںکا نتیجہ ہے کہ روسی صدر پیوٹن جیسے مضبوط رہنما نے بھی مغربی دنیا کو پیغام دیا کہ رسالت مآب کی توہین ہرگز آزادیٔ اظہار نہیں ہے۔ آج اگر دنیا اسلامو فوبیا سے کنارہ کش ہو رہی ہے تو اس کے پس پردہ وہ کوششیں اور سفارت کاری ہے جو وزیر اعظم عمران خان گذشتہ تین سالوں سے بین الاقوامی فورم پر کر رہے ہیں۔

وزیر اعظم عمران خان کا سب سے اہم اقدام عوام کو صحت کارڈ فراہم کرنا ہے۔ یہ فلاحی ریاست کی طرف پہلا قدم ہے، کیونکہ تکلیف میں کسی بھی شہری کو تنہا نہیں چھوڑا جا سکتا، کم از کم علاج اور تعلیم کی سہولیات یکساں مہیا ہونی چاہیے، ترقی یافتہ ممالک میں یہ دونوں سہولتیں شہریوں کو حاصل ہیں، بدقسمتی کی بات ہے کہ پاکستان میں اس سے پہلے عوام کو علاج کی مفت سہولت بارے نہیں سوچا گیا، میاں نواز شریف نے گذشتہ دور حکومت میں پنجاب کے عوام میں سے چنیدہ خاندانوں کو ہیلتھ کارڈ فراہم کیا تھا اس کی بھی تحسین کی جانی چاہئے مگر ضرورت مندوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔

سو اس تناظر میں دیکھا جائے تو تحریک انصاف کی طرف سے بلاتفریق عوام کو صحت کارڈ کی فراہمی احسن اقدام ہے۔ اپوزیشن کا ایک طبقہ تحریک انصاف حکومت کے ہر منصوبے پر سوالیہ نشان لگانا چاہتا ہے، اس طبقے نے صحت کارڈ پر بھی طرح طرح کے اعتراض اٹھائے ہیں، بھلا کیسا اعتراض ہے کہ صحت کارڈ میں او پی ڈی کی سہولت نہیں ہے، اس کے برعکس ہمیں یہ سوچنا چاہئے کہ اگر اس کارڈ کی بدولت عوام کو مہلک امراض کے علاج کا موقع مل رہا ہے تو یہ بہت اچھی بات ہے کیونکہ جو مریض کچھ عرصہ پہلے تک پائوں رگڑ رگڑ کر مر جاتے تھے اب وہ اپنی مرضی کے ہسپتال سے علاج کرا سکیں گے۔ سیاسی اختلاف اپنی جگہ مگر اس منصوبے کی تحسین کی جانی چاہیے۔

نیا پاکستان ہائوسنگ منصوبہ تحریک انصاف کا عظیم منصوبہ ہے، اس منصوبہ کے تحت کم آمدن افراد بھی اپنے ذاتی گھر کے مالک بن سکیں گے۔ آپ تصور کریں کہ ساڑھے چھ ہزار روپے ماہوار قسط کے عوض ساڑھے تین مرلے کا گھر مل رہا ہے ، مکان کی کل قیمت ساڑھے 17لاکھ روپے ہے اور بینک لون کی سہولت کے ساتھ۔ اس سے بڑھ کر اور کیا چاہئے، کرائے پر رہنے والے کروڑوں افراد میں سے کون نہیں چاہے گا کہ اس کا ذاتی گھر ہو ، اپوزیشن جماعتیں بخوبی جانتی ہیں کہ اگر وزیر اعظم عمران خان مزید کچھ عرصہ اقتدار میں رہ گئے تو کم از کم وہ سستے گھر اور صحت کارڈ ضرور فراہم کر دیں گے۔

عوام کو جب گھر اور علاج کی سہولت سرکار کی طرف سے مل جائے گی تو اس کے آدھے مسائل ختم ہو جائیں گے،کیونکہ آمدن کا بڑا حصہ کرائے کے مکان اور علاج کی نذر ہو جاتا ہے۔ شاید انہی منصوبوںکو سامنے رکھ کر تحریک انصاف کے رہنما کہتے ہیں کہ عوام کے مسائل بہت جلد ختم ہونے والے ہیں۔

اپوزیشن جماعتیں اگر ملک و قوم کی خیر خواہ ہیں تو انہیں ہر ایسے کام میں حکومت کا ساتھ دینا چاہئے جس سے ملک و قوم کی بہتری ہوتی ہے مگر ہمارے ہاں موجودہ حکومت کے اچھے منصوبوں میں بھی اس کی مخالفت کی روایت پائی جاتی ہے۔

اس طرح کی سوچ کی کسی صورت حمایت نہیں کی جا سکتی ہے۔ کرپشن کے خلاف وزیر اعظم عمران خان کی جد و جہد کو سبھی تسلیم کرتے ہیں، تنقید اس بات پر ہوتی ہے کہ انہیں کرپشن کے خلاف خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہو سکی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کو یہ کام دیگر سیاسی رہنماؤں سے ممتاز کرتے ہیں لیکن دیکھنا یہ ہے کہ وہ اپنے ویژن میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button