کون، کس کیلئے جال بچھا رہا ہے؟

حکمران جماعت تحریک انصاف کو معاشی چیلنجز کا سامنا ہے، بسیار کوشش کے باوجود معاملات سنبھل نہیں رہے ہیں، آئی ایم ایف سے ریلیف پیکج بھی بھاری ثابت ہو رہا ہے، ایسی صورتحال میں جب کہ حکومت کو اپنی گورننس بہتر بنانے اور مہنگائی کو کنڑول کرنے کی طرف توجہ دینی چاہئے تھی حکومتی وزراء ایک بار پھر عوام کی توجہ احتساب کی جانب مبذول کرانے کی کوشش کر رہے ہیں، حالانکہ احتسابی عمل تحریک انصاف کے اقتدار میں آنے سے پہلے ہی شروع ہو چکا تھا۔

میاں نواز کو جب نااہل قرار دے کر عہدے سے برطرف کیا گیا تھا تو اس وقت مسلم لیگ ن کی حکومت تھی، تحریک انصاف نے اقتدار میں آنے کے بعد کوشش کی کہ اپوزیشن کو کرپٹ ثابت کیا جا سکے، مگر تین سال سے زائد مدت کی جدوجہد کے باوجود احتسابی عمل کسی سرے نہیں لگ سکا ہے بلکہ الٹا اعلیٰ عدالتوں کی جانب سے اپوزیشن رہنماؤں کو ریلیف مل گیا ہے۔ قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ احتساب کی پٹاری سے اگر کچھ نکلنا ہوتا تو بہت پہلے نکل چکا ہوتا، مسئلہ یہ ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کے پاس پیش کرنے کیلئے کوئی قابل ذکر پروگرام نہیں ہے تو انہوں نے بڑی مہارت سے ایک بار پھر مسلم لیگ ن کے کورٹ میں بال پھینک دی ہے۔

تحریک انصاف کے رہنماؤں نے مسلم لیگ ن پر الزام عائد کیا ہے کہ میاں نواز شریف اپنی بیٹی مریم نواز کیلئے ڈیل کے خواہش مند ہیں، اسی طرح شہباز شریف اپنے لئے اور حمزہ شہبازکیلئے رعایت چاہتے ہیں۔ فواد چوہدری نے مسلم لیگ ن کے صف اول کے چار لوگوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ پی ٹی آئی میں شمولیت کیلئے پر تول رہے ہیں جبکہ شیخ رشید احمد کہتے ہیں کہ کوئی ڈیل نہیں ہو رہی ہے، پہلے شاید ڈھیل کی بات تھی اب ڈھیل بھی نہیں ہو گی۔

مسلم لیگ ن کے قائدین نے اگرچہ تحریک انصاف کے الزامات کو کلی طور پر مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمیں ڈیل کی ضرورت ہے اور نہ ایسا کوئی ہمارا مطالبہ ہے، تاہم بنیادی سوال یہ ہے کہ مسلم لیگ ن کے جن رہنماؤں نے تحریک انصاف کے ساتھ رابطہ کر کے ڈیل کی بات کی ہے ان کے نام ظاہر کیوں نہیں کئے جا رہے اس سے مناسب وقت بھلا کیا ہو سکتا ہے جب حکومت ہر طرف سے بحرانوں کی زد میں ہے اگر حکومت مسلم لیگ ن کو بے نقاب کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو اس کی سیاسی ساکھ میں اضافہ ہو جائے گا۔

سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ گزشتہ تین سالوں کے دوران مسلم لیگ ن پر انتہائی کڑا وقت آیا، مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف اور مریم نواز لندن سے پاکستان آئے حالانکہ وہ بخوبی جانتے تھے کہ پاکستان اترتے ہی انہیں گرفتار کرنے کا پروگرام تشکیل دیا جا چکا ہے اور بیمار کلثوم نواز جو وینٹی لیٹر پر زندگی کی آخری سانسیں لے رہی تھی اسے چھوڑ کر مشکل راستے کا انتخاب کرنا آسان فیصلہ نہ تھا لیکن انہوں نبے بہرصورت یہ فیصلہ کیا، آج جبکہ ویسے مشکل حالات نہیں رہے ہیں اور عوام تحریک انصاف سے کارکردگی بارے استفسار کر رہے ہیں تو مسلم لیگ ن کیوں ڈیل کرے گی؟

ایسے حالات میں مسلم لیگ ن یہ سمجھ رہی ہے کہ تحریک انصاف کی ناکامی نوشتہ دیوار ہے اور اگلی حکومت انہی کی ہو گی، مسلم لیگ ن کی تیاریوں سے بھی صاف دکھائی دے رہا ہے کہ وہ آئندہ انتخابات کی تیاریوں میں مصروف ہے۔ اس دوران تحریک انصاف قیادت کی طرف سے ڈیل کا الزام سمجھ میں نہ آنے والی بات ہے۔

سیاسی امور کے ماہرین کا خیال ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت آنے والے دنوں میں اپوزیشن قیادت کے خلاف کیس بنائے گی جس کے نتیجے میں اپوزیشن قیادت گرفتار ہو سکتی ہے، یہ سب اس امید سے کیا جائے گا تاکہ حکومت عوام کی نظر میں سرخرو ہو سکے لیکن معلوم ہونا چاہئے کہ عوام میں اپوزیشن قیادت کی گرفتاریوں سے خوش ہونے والوں کی تعداد بہت کم ہے اکثر لوگ حکومتی کارکردگی میں بہتری چاہتے ہیں۔

حکومت جو خواب دیکھ رہی ہے عملی طور پر اس کو فائدہ کی بجائے نقصان ہو گا کیونکہ اپوزیشن جماعتیں پہلے ہی احتجاج کا عندیہ دے چکی ہیں اور موسم بہتر ہوتے ہی وہ حکومت کو ٹف ٹائم دینے کیلئے احتجاج کا آغاز کر دیں گی، غالب یقین یہی ہے کہ عوام کی اکثریت اپوزیشن کے احتجاج کا حصہ بن جائے گی، اس وجہ سے نہیں کہ وہ اپوزیشن جماعتوں کے ایجنڈے پر یقین رکھتے ہیں بلکہ اس امید پر کہ اپوزیشن کے احتجاج کے نتیجے میں وہ حکومت تک اپنا پیغام پہنچانے کی کوشش کریں گے، کیونکہ مہنگائی ہر پاکستانی کا مسئلہ بن چکا ہے ۔

یوں دیکھا جائے تو تحریک انصاف کی حکومت اپنے ہی جال میں پھنسنے جا رہی ہے۔ سو مذکورہ بالا حقائق کو سامنے رکھ کر ہونا تو یہ چاہئے کہ حکومت باقی ماندہ مدت میں کارکردگی بہتر بنانے پر توجہ دیتی، خیبر پختونخوا کی طرح پورے پاکستان کے عوام کو صحت کارڈ فراہم کیا جاتا، کیونکہ وقت اس کی ہتھیلی سے ریت کی طرح پھسلتا جا رہا ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ جب تحریک انصاف اپنی آئینی مدت پوری کرے تو اس کے پاس عوام کے سامنے پیش کرنے کیلئے کوئی قابل ذکر منصونہ نہ ہو۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button