مانع حمل ادویات کی آسان دستیابی کا مطالبہ
آبادی میں پائیدار اضافے کے حصول کیلئے سول سوسائٹی تنظیموں کا وفاقی حکومت سے مانعِ حمل ادویات پر ٹیکس چھوٹ برقرار رکھنے کا مطالبہ
آبادی کے لحاظ سے پاکستان دنیا کا پانچواں بڑا ملک بن چکا ہے اور تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی آج پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے جس کی وجہ سے آبادی اور وسائل کے درمیان عدم توازن پیدا ہو رہا ہے اور صحت، تعلیم، خوراک ، روزگار اور انفراسٹرکچر جیسی ضروریات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔
2018میں سپریم کورٹ کی جانب سے سوموٹو نوٹس لینے کے بعد آبادی میں پائیدار اضافے کے حصول کیلئے مشترکہ مفادات کونسل نے اپنی سفارشات پیش کی تھیں جن پرعمل درآمد کرکے آبادی اور وسائل کے درمیان توازن پیدا کیا جاسکتا ہے۔ ان سفارشات میں عوام تک مانعِ حمل ادویات اور طریقوں کی رسائی میں بہتری بھی شامل ہے۔
حکومتِ پاکستا ن کی جانب سے پارلیمنٹ میں پیش کئے جانے والے حالیہ مالیاتی سپلیمنٹری بِل 2021 میں مانعِ حمل ادویات کی درآمد پر سالانہ بنیادوں پر نئے ٹیکس عائد کئے گئے ہیں ۔ اس بل میں روزمرہ استعمال کی ایسی اشیاء پر دو ارب روپئے سالانہ ٹیکس لگانے کی تجویز پیش کی گئی ہے جن کو پہلے ٹیکس سےاستثناء حاصل تھا۔
ان اشیاء میں مانعِ حمل ادویات بھی شامل ہیں۔ سول سوسائٹی تنظیموں کے اتحاد برائے آبادی نے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مشترکہ مفادات کونسل کی سفارشات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے مانعِ حمل ادویات اور طریقوں کی دستیابی کو یقینی بنائے۔ سول سوسائٹی تنظیموں کااتحاد برائے آبادی پورے پاکستان میں کام کرنے والی ایسی21سول سوسائٹی تنظیموں کا اتحاد ہے جو خاندانی منصوبہ بندی، تولیدی صحت ، خواتین کے حقوق، تعلیم، بچوں کے حقوق، ماحول، امن و امان، گورننس اور دیہی ترقی جیسے موضوعات پر کام کر رہی ہیں۔
پاکستان میں مانعِ حمل طریقوں کی پوری نہ ہونے والی ضروریات کی بلند شرح کی ایک بڑی وجہ خاندانی منصوبہ بندی کے طریقوں تک رسائی میں کمی اور ان کا مہنگا ہونا ہے۔ اس وقت پاکستان میں امیر وغریب طبقے سے تعلق رکھنے والے 53 فیصد شادی شدہ جوڑے مانعِ حمل ادویات فارمیسی، دکانوں اور پرائیویٹ سیکٹر سے خریدتے ہیں۔
حالیہ بل میں تجویز کردہ نئے ٹیکس سے شادی شدہ جوڑوں کی اکثریت متاثر ہوگی ۔ اس بات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کہ بار بار حمل اور حمل کے درمیان نامناسب وقفہ ہونے سے خواتین کی صحت کے ساتھ ساتھ ان کے خاندان کی معاشی حالت بھی متاثر ہوتی ہے ، خاندانی منصوبہ بندی کی ادویات کی قیمت میں اضافہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی میں شمار کیا جاسکتا ہے۔ مانعِ حمل ادویات ضروری طبی اشیاء میں شمار ہوتی ہیں اور پاکستان کو آبادی میں پائیدار اضافے کے حصول کیلئے خاندانی منصوبہ بندی کی سہولیات کے ساتھ ساتھ مانعِ حمل ادویات کی سپلائی کی بلا تعطل فراہمی کو بھی یقینی بنانا ہوگا ۔
مانعِ حمل ادویات کی بلا تعطل فراہمی مشترکہ مفادات کونسل کے اہداف کے حصول کیلئے بنائے جانے والی آٹھ حکمتِ عملیوں میں شامل ہے۔ پاکستان میں مانعِ حمل طریقوں کے استعمال کی شرح خطے میں سب سے کم ہے اور مانعِ حمل ادویات پر ٹیکس لگانے سے اس شرح میں مزید کمی آئے گی۔