تحریک انصاف بند گلی میں؟

پاکستان کی 75سالہ تاریخ میں کوئی ایسا دور نہیں ہے جسے سیاسی استحکام کا دور کہا جا سکے، حتیٰ کہ 1997ء میں جب مسلم لیگ ن نے ملکی تاریخ میں پہلی بار دو تہائی اکثریت حاصل کی تو محض دو سال بعد ہی ان کی حکومت کو ختم کر کے مارشل لا لگا دیا گیا، اس دور سے پہلے اور بعد میں پھر کسی حکومت کو دو تہائی اکثریت حاصل نہ ہو سکی۔

اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ جب دو تہائی اکثریت کے باوجود ایک منتخب وزیر اعظم اپنے اقتدار و حکومت کو بچانے میں کامیاب نہیں ہو سکے تو جب اتحادیوں کی بے ساکھیوں کے سہارے حکومت کھڑی ہو گی تو حکومت کو بچانا کس قدر مشکل ہو گا، کیونکہ ملک میں سیاسی استحکام قائم نہیں ہو سکا ہے اور سیاسی استحکام کا قائم نہ ہونا ہی ہمارے اکثر مسائل کی وجہ بھی ہے۔

اس حوالے سے وفاقی وزیر فواد چوہدری کہتے ہیں کہ اس وقت مکمل سیاسی اور معاشی استحکام ہے، آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات طے پا چکے ہیں، اور اب جنوری میں یہ بل پاس ہو جائے گا، اس سے ڈالر کی قیمت بھی نیچے آئے گی جبکہ اشیائے ضروریہ کی قیمتیں کم ہونا شروع ہوگئی ہیں، ساتھ ہی توانائی کی قیمتیں بھی کم ہوں گی۔

وفاقی وزیر نے دعویٰ کیا کہ درآمد شدہ اشیاء کی قیمتیں بین الاقوامی مارکیٹ کے مطابق تبدیل ہوتی ہیں، بین الاقوامی مارکیٹ میں اس وقت جو رجحان ہے اس سے لگتا ہے کہ قیمتوں میں کمی آئے گی، قیمتوں میں استحکام آنا شروع ہوگیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے یکم جنوری کو یہ کہا تھا کہ نئے سال کا آغاز ہمیں تلخیوں میں کمی کرتے ہوئے کرنا چاہیے، سیاسی جماعتوں کو اصلاحات پر بات کرنی چاہیے، لیکن بد قسمتی سے پاکستان فرقہ واریت پر مبنی جماعتیں زور پکڑ رہی ہیں، فواد چوہدری نے خیر پختونخوا میں جے یو آئی اور ٹی ایل پی کا جیتنا بد قسمتی قرار دیا۔


تحریک انصاف کے رہنما اپوزیشن کے متوقع احتجاج سے بچنے کیلئے سیاسی استحکام کا دعویٰ کر رہے ہیں جو زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتا ہے، حقیقت یہ ہے کہ تحریک انصاف کی قیادت بھی یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہے کہ ان کے دور حکومت میں پاکستان کے مسائل حل نہیں ہو پائے ہیں، چونکہ وہ حکومت میں ہیں تو ان کی کوشش ہے کہ جو مدت ان کی باقی رہ گئی ہے وہ گزار لیں تاکہ اس وقت میں صحت کارڈ اور دیگر زیر تکمیل منصوبوں پر توجہ دے کر انہیں اپنے کریڈٹ پر لایا جا سکے۔

اس دوران تحریک انصاف کی کوشش ہو گی کہ وہ احتسابی عمل کو کسی کنارے لگا کر عوام کی عدالت میں سرخرو ہو سکے کہ انہوں نے احتساب کا وعدہ پورا کر دیا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ تحریک انصاف جتنی مدت اقتدار میں رہے گی اس کی ناکامی کا تاثر گہرا ہوتا جائے گا، اور اپوزیشن دراصل یہی چاہتی ہیں تاکہ آئندہ انتخابات میں تحریک انصاف کا راستہ روکا جا سکے۔اگرچہ آئندہ عام انتخابات 2023ء کے آخری حصے میں ہونے ہیں مگر تحریک انصاف کے نامزد امیدواروں نے ابھی سے ہی یہ محسوس کرنا شروع کر دیا ہے کہ اگر حکومت آنے والے مہینوں تک برقرار رہتی ہے تو بھی آئندہ کچھ عرصے میں صورتحال کی بہتری کی کوئی گارنٹی نہیں ہے۔

اگر حزب اختلاف کسی نہ کسی طرح ایک ایسی صورتحال پیدا کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے جہاں معاملہ نمبر گیم تک پہنچ سکتا ہے اور اگر اسٹیبلشمنٹ ان کوششوں سے خود کو الگ رکھتی ہے تو پھر حکومت کے لیے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں ایسی صورتحال سے بچاؤ کیلئے اس پاس ایک آپشن باقی رہ جاتا ہے کہ وہ اپنے ممبران کا ہاتھ پکڑے اور اپنے اتحادیوں کو پوری شدت سے تھام لے۔ تحریک انصاف کے رہنما اور اتحادی اس دوران ڈیمانڈ کریں گے کہ حکومت ان کیلئے فنڈز جاری کرے تاکہ وہ اپنے حلقوں میں ترقیاتی کام کروا سکیں، ایسے وقت میں ترقیاتی کام تو ہو نہیں سکیں گے کیونکہ حکومت کیلئے وقت بہت کم ہے جس میں ترقیاتی منصوبوں کو پورا ہونا مشکل ہے مگر حکومت اپنے اراکین کو اپنے ساتھ جوڑے رکھنے کیلئے فنڈز فراہم کرے گی کیونکہ اس کے علاوہ اس کے پاس دوسرا کوئی آپشن نہیں ہے۔

یوں قوی امکان ہے کہ ملک و قوم کی ترقی کیلئے فراہم کئے جانے والے فنڈز چند افراد کی ذاتی جیبوں کی نذر ہو جائیں گے۔چند ہفتوں کے دوران طاقتور مراکز کے درمیان رضامندی کے پیغامات کا خاموش تبادلہ ہوتا رہا ہے مگر یہ سلسلہ ان خدشات کو دور کرنے میں کارگر ثابت نہیں ہوا ہے کہ ایک ہی صفحہ اب اتنا زیادہ ایک نہیں رہا۔ زیادہ مشکل اس بات کا اندازہ لگانا ہے کہ اندر ہی اندر اٹھنے والی ان لہروں کے غیر مستحکم سیاسی صورتحال پر براہ راست اثرات مرتب ہوں گے یا نہیں۔

تحریک انصاف حکومت کا خاتمہ بھلے ہی فوری طور پر عمل میں نہ آئے لیکن یہ امرِ ناممکن بھی نہیں ہے، اگر حکومت اگلے چند ماہ کے بعد بھی برقرار رہتی ہے تو اس کی اہم وجہ دیگر کھلاڑیوں کی اگلے لائحہ عمل اور طرز عمل پر اتفاق رائے کا فقدان ہوگی۔ اقتصادی صورتحال بہتری کی جانب گامزن ہونے سے قبل آنے والے ہفتوں میں مزید بدتر ہونے کے امکانات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔

اگر اس میں بہتری آتی ہے تو بھی شہریوں کو آگے مزید پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ان حقائق کو سامنے رکھ کر اپوزیشن جماعتیں کوئی ایسا قدم نہیں اٹھانا چاہتی ہیں جس سے ساری ذمہ داری ان پر آن پڑے، سو قوی امکان ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت سو کمزریوں کے باوجود اپنی آئینی مدت پوری کرے گی۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button