کیا حکومت چند روز کی مہمان ہے؟
سیاسی جماعتیں اور ان کے قائدین اچانک متحرک ہو گئے ہیں، سیاسی سرگرمیوں کے پس پردہ مقاصد کا اندازہ لگانے کیلئے اپوزیشن رہنماؤں کے بیانات کافی حد تک منظر کشی کر رہے ہیں، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اپوزیشن قائدین اندرون خانہ ہونے والی ڈیل کے نتیجے میں بول رہے ہیں، میاں نواز شریف کی واپسی کا ڈھنڈوروا اور آصف علی زردای کی اسلام آباد میں ملاقاتیں، اس پر مستزاد حکمران جماعت کی پریشانی ہے جو کسی بڑے پیش خیمہ کی نشاندہی کر رہی ہے۔ سیاسی امور کے ماہرین کا خیال ہے کہ تحریک انصاف کو خیبرپختونخوا کے بلدیاتی انتخابات میں واضح ناکامی کے بعد اپوزیشن جماعتوں کی ہمت بندھی ہے اور انہوں نے مقتدر حلقوں کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ تحریک انصاف عوامی مقبولیت اور حمایت کھو چکی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ تحریک انصاف اپنے دور حکمرانی کا تین سال سے زائدعرصہ گزار چکی ہے لیکن اس کی کارکردگی تسلی بخش نہیں ہے، مقتدر حلقوں کو اس بات کا ادراک ہے، معیشت حکومت کیلئے ایک چیلنج بن چکی ہے، اس دوران حکومت نے متعدد وزراء خرانہ کو تبدیل کیا لیکن اس کے باوجود معیشت نہیں سنبھل پا رہی ہے، معاشی چیلنج مہنگائی اور بے روزگاری کا باعث بن رہا ہے، ایسی صورتحال میں تحریک انصاف حکومت کا اقتدار قائم رہنا بہت مشکل ہے۔
سو تحریک انصاف کی حکومت کو ہٹانے سے پہلے ناکام ثابت کرنے کا منصوبہ تشکیل دیا گیا ہے، اپوزیشن جماعتوں نے بڑی مہارت سے یہ کھیل ایک ایسے وقت شروع کیا ہے جب تحریک انصاف کی حکومت کے پاس ڈلیور کرنے کیلئے وقت بہت کم بچا ہے، معیشت کی تباہی اور بیرونی قرضوں میں جو اضافہ ہو چکا ہے حکومت اسے برقرار رکھنے میں بھی کامیاب ہو گئی تو یہ بھی بہت اہم ہو گا کیونکہ معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ ابھی ڈالر 200 کا ہندسہ عبور کرے گا، ملک کے اندر معمولی سا ہنگامہ بھی ڈالر کو مزید مہنگا کرنے کا سبب بن سکتا ہے، جب سیاسی عدم استحکام بڑھ جائے گا تو ڈالر کی قیمت میں اضافہ اور روپے کی قدر میں کمی ہو جائے گی۔
آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جب ایسی صورتحال ہو گی اور مہنگائی میں مزید اضافہ ہو گا تو حکومت کی مقبولیت کہاں کھڑی ہو گی۔ اپوزیشن جماعتیں دراصل حکومت کی ناقص کارکردگی کو ہی کیش کرانا چاہتی ہیں، اس حوالے سے ہر جماعت اپنے اپنے طور پر کوشش کر رہی ہے۔ مسلم لیگ ن نے بڑی مہارت سے میاں نواز شریف کی واپسی کا شوشہ چھوڑ دیا ہے، کہا جا رہا ہے کہ حکومت میاں نواز شریف کی واپسی سے پریشان ہے، حکومتی وزراء بھی ایسے بیانات دے رہے ہیں جس سے دکھائی دیتا ہے کہ واقعی میاں نواز شریف کی واپسی پر حکومت کی ہوائیاں اڑی ہوئی ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہر جماعت اپنے آپ کو تحریک انصاف کا متبادل، عوام کی مقبول سیاسی جماعت اور آئندہ انتخابات کیلئے موزوں ترین قرار دینے کیلئے کوشاں ہے۔ ملک کی سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کی سرگرمیاں بالعموم اسی وقت بڑھتی ہیں جب انہیں کوئی اشارہ ملتا ہے، سیاسی جماعتوں کی حالیہ سرگرمیاں بھی کسی اشارے کا نتیجہ ہو سکتی ہیں۔
اپوزیشن جماعتوں کی تیاری کے برعکس حکمران جماعت تحریک انصاف کے پاس آپشنز محدود ہیں، تحریک انصاف کی کوشش ہو گی کہ وہ اپنی آئینی مدت کی تکمیل سے پہلے صحت انصاف کارڈ پنجاب میں فراہم کر دے اور گھروں کیلئے فراہمی کا عمل بھی تیز کر دے لیکن آئندہ انتخابات میں کامیابی کیلئے مذکورہ دو منصوبے ناکافی ہوں گے، سو قوی امکان ہے کہ تحریک انصاف اپنے دور میں نیب قوانین میں اس حد تک ترمیم کر کے انہیں نرم کر دے گی کہ اگر اگلی بار انہیں حکومت نہ بھی ملی تو وہ نیب قانون میں نرمی کی وجہ سے احتسابی عمل سے بچ سکے، کیونکہ نئے احتساب قانون کے نافذ ہونے سے تقریباً ایک سو ہائی پروفائل کیس متاثر ہوں گے جن میں سابق صدر، موجودہ اور سابق وزرائے اعظم، ارکان پارلیمنٹ اور سینئر بیوروکریٹس کے کیسز شامل ہیں۔
قومی احتساب بیورو (نو ترمیم شدہ) کے آرڈیننس 2021ء کا بغور جائزہ لینے سے معلوم ہوگا کہ 2700 کے قریب ملزمان (جن میں سے 60 فیصد کیخلاف 8272 ریفرنس، انوسٹی گیشنز، انکوائریاں اور شکایات درج ہیں) انہیں نئے نافذ ہونے والے احتساب قانون کے نتیجے میں ریلیف ملے گا یا پھر ان کے معاملات متعلقہ حکام، محکموں یا پھر متعلقہ قانون کے تحت آنے والی عدالتوں کو منتقل ہو جائیں گے۔ سرکاری دستاویز سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ نئے نیب آرڈیننس کے نفاذ کے حوالے سے صورتحال کو دیکھتے ہوئے نیب انتظامیہ نے اپنے ریجنل دفاتر سے کہا ہے کہ فی الحال کارروائی کو روک دیا جائے تاوقتیکہ وزارت قانون و انصاف (ایم ایل جے) نئے آرڈیننس کے حوالے سے اپنی تشریح پیش کرے۔ یہ پیشرفت نیب آرڈیننس 1999ء میں ترمیم کے بعد سامنے آئی ہے جس میں خصوصی طور پر نیب قانون کے ان حصوں پر توجہ مرکوز کی گئی ہے جن میں لکھا ہے کہ اس آرڈیننس کی شقیں مندرجہ ذیل افراد یا ٹرانزیکشن (لین دین)، تمام وفاقی، صوبائی یا مقامی ٹیکسیشن، دیگر لیویز یا امپوسٹس پر لاگو نہیں ہوتیں۔
نیب کی جانب سے اپنے ریجنل دفاتر کو لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ تمام معاملات پر فیصلے کو فی الحال معطل رکھا جائے گا تاوقتیکہ وزارت قانون کی طرف سے کوئی ایڈوائس نہ مل جائے۔کیسز کے ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ کئی لوگوں کو ذرائع سے زیادہ آمدنی کے کیسز کا سامنا ہے جو نئے قانون کے دائرے میں نہیں آتے، اپوزیشن جماعتوں نے نیب قوانین میں ترمیم پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ تحریک انصاف نے احتساب سے بچنے کیلئے پیشگی بندوبست کر لیا ہے، تاہم یہ بات یقین کی حد تک واضح ہو چکی ہے کہ
جی کا جانا ٹھہر گیا ہے صبح گیا یا شام گیا