دختر مشرق بے نظیر بھٹو
محترمہ بے نظیر بھٹو اپنی ذہانت اور فلسفے سے بڑے سے بڑے عالمی لیڈروں کو قائل کر لیا کرتی تھیں
بے نظیر بھٹو کو پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کئی ایسے امتیازات حاصل ہیں جو کسی اور کے حصے میں نہ آسکے
بے نظیر بھٹو 1976ء میں آکسفورڈ یونیورسٹی کے طلبہ کی یونین کی صدر منتخب ہوئیں، وہ پہلی ایشیائی طالبہ تھیں جنہیں یہ اعزاز حاصل ہوا
انہیں عالمی سطح پر آئرن لیڈی، مشرق کی شہزادی، دختر اسلام اور مشرق کی بیٹی کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے
27 دسمبر پاکستان کی تاریخ کا وہ سیاہ دن ہے، جب سحر انگیز شخصیت کی مالکہ اور مدبر سیاستدان محترمہ بے نظیر کو لیاقت باغ کے جلسہ عام کے بعد سفاک درندوں نے ابدی نیند سلا دیا، محترمہ بے نظیر بھٹو عوامی لیڈر ہی نہیں تھیں بلکہ عالمی سطح پر مقبول تھیں، محترمہ کا شمار دنیا کی با اثر خواتین میں ہوتا تھا اور وہ عالمی سطح پر پاکستان کی ایک توانا آواز تھیں،عالمی سطح پر محترمہ بے نظیر کی مقبولیت کا انداز اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب 27 دسمبر 2007ء کو انہیں شہید کیا گیا تو پوری دنیا کے لیڈروں نے اس پر افسوس کا اظہار کیا جبکہ اقوام متحدہ نے شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے قرار داد متفقہ طور پر منظور کی تھی، وہ دنیائے اسلام کی پہلی منتخب خاتون وزیراعظم اور اپنی ذہانت اور فلسفے سے بڑے سے بڑے عالمی لیڈر وں کو قائل کرنے کی خوبی کی مالکہ تھیں، انہیں عالمی سطح پر آئرن لیڈی، مشرق کی شہزادی، دختر اسلام اور مشرق کی بیٹی کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے، بے نظیر کی شہادت سے پاکستان ایک عالمی سطح کی رہنما سے محروم ہوگیا۔
محترمہ بے نظیر بھٹو میں قائدانہ صلاحیتیں بچپن سے ہی موجود تھیں، یہی وجہ تھی کہ جب وہ آکسفورڈ یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھیں تو اس وقت بھی وہ دیگر طلبہ میں کافی مقبول رہیں جبکہ انہیں آکسفورڈ یو نیورسٹی یونین کی منتخب ہونے والی پہلی ایشیائی مسلمان خاتون ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے، محترمہ بے نظیر بھٹوکی خداداد صلاحیتوں کو بھانپتے ہوئے شہید ذولفقار علی بھٹو نے اپنے دور اقتدار میں ہی اپنی اولاد میں سے اُن کا انتخاب کر لیا تھا۔
ان کا مشاہدہ تھا کہ ان میں وہ تمام خوبیاں چشم تر میں ملتی ہیں جو کہ ایک ذہن بے باک، نڈر، باصلاحیت اور عوام کے دلوں میں راج کر جانے والے لیڈر میں ہوتی ہیں ، محترمہ بے نظیر بھٹو جہاں سیاسی سرگرمیوں میں مصروف عمل رہتیں وہاں وہ اپنی نجی زندگی میں بھرپور تھی، اُن کا ایک وسیع حلقہ احباب تھا، محترمہ کے اکثر دوست غیر ملکی تھے، جن میں سے ایک مشہور برطانوی صحافی کرسٹینا لیمب بھی ہیں، کرسٹینا پر بینظیر بھٹو کی شخصیت کا بہت گہرا اثر تھا یہی وجہ ہے کہ اُن کی میز پر ہر وقت 2007ء کی بینظیر کی موت سے پہلے لی جانے والی تصویر ہر وقت سجی رہتی ہے، اسی طرح محترمہ بے نظیر بھٹو کی ایک قریبی دوست خاتون مؤرخ اور مصنفہ وکٹوریہ شوفیلڈ بھی ہیں جن کی محترمہ بے نظیر بھٹو سے دوستی کا آغاز آکسفورڈ سے ہوا اور پھر یہ وقت کے ساتھ مزید گہری ہوتی گئی، وکٹوریہ شوفیلڈ نے محترمہ سے اپنی دوستی کے لازوال رشتے کے بارے میں ایک کتاب بھی لکھی ہے ، تعلیم اور پھر دو بار جلاوطنی کے باعث محترمہ بے نظیر بھٹو طویل عرصہ ملک سے باہر رہیں ، اس دوران جہاں انہوں نے دوسرے ممالک کے سیاسی و حکومتی نظاموں کا مشاہدہ کیا وہاں وہ پاکستان کے معاملات سے بھی لا تعلق نہ رہیں ، جلاوطنی کے دوران میں بھی اُن کی سیاسی مصروفیات جاری رہتیں، وہ ملک میں عملی طور پر عوامی راج یقینی بنانا چاہتی تھیں۔
بے نظیر بھٹو انسانی حقوق کی بھی بہت بڑی علمبردار تھیں، وہ ہر فورم پر مظلوم کشمیریوں کے حقوق کی بات کرتی تھیں، اسی طرح فلسطین کے مسئلے پر بھی عالمی سطح پر بھرپور آواز اٹھائی ،اسی لئے فلسطینیوں کے دلوں میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے لئے ایک خاص مقام تھا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو بلند سوچ کی مالکہ تھیں، اُن کے دل میں دنیا بھر کے مسلمانوں کے لئے درد تھا، اُن کی خواہش تھی کہ عالم اسلام کو امن اور ترقی کا گہوارہ بنایا جائے، ملک کے سیاسی معاملات میں بھی انہوں نے ہمیشہ مفاہمت کا راستہ اختیار کیا، وہ اکثر یہ کہتی تھیں ہر معاملے میں فاصلوں کو مٹانا اور مثبت طرز فکر اپنانا ہی ملک اور قوم کے بہترین مفاد میں ہے۔
مغرب میں تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اور وہاں زندگی کا خاصہ وقت گزارنے کے باوجود محترمہ بے نظیر بھٹو نے مشرقی اقدار اور روایات کو ہمیشہ مدنظر رکھا تھا، اگر یہ کہا جائے کہ محترمہ نے خود کو مکمل طور پر مشرقی طرز میں ڈھال لیا تھا تو غلط نہ ہوگا، وہ نہ صرف خواتین کے حقوق کی علامت تھیں بلکہ پسماندہ اور مظلوم خواتین کے لئے امید کی کرن بھی تھیں، وہ اس قدر شفیق اور احساس کرنے والی شخصیت کی مالکہ تھیں کہ خواتین ان کے پاس تحفظ محسوس کرتی تھیں، افسوس! 27 دسمبر 2007ء کو محترمہ بے نظیر بھٹو جیسی توانا آواز کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خاموش کرا دیا گیا، ملک اور قوم کے لئے یہ وہ نقصان تھا جس کی تلافی ممکن نہیں،محترمہ بے نظیر بھٹو وہ گوہر نایاب تھا جن کے لئے مخالفین کے دلوں میں بھی بے پناہ قدر اور مقام تھا یہی وجہ ہے کہ ہر سال 27 دسمبر کو اُن کی برسی پر پاکستانی کا دل بے نظیربھٹو کی یاد میں روتا ہے۔