وفاق اور صوبے الگ الگ راہ پر کیوں؟
سندھ اسمبلی نے اپوزیشن کی شدید مخالفت کے باوجود سندھ بلدیاتی ترمیمی بل نئی ترامیم کے ساتھ منظور کر لیا ہے، اس موقع پراپوزیشن جماعتوں نے بلدیاتی قانون کی منظوری کو سندھ پر قبضے کا قانون قرار دیتے ہوئے اسے مسترد کر دیا ہے ۔ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ سندھ حکومت نے آمدنی والے ادارے اپنے پاس رکھ لیے ہیں، وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے دھمکی آمیز لہجے میں کہا کہ ہمیں پاکستان کا حصہ سمجھیں ، ہمیں کچھ اور سوچنے پر مجبور نہ کریں۔
حقیقت یہ ہے کہ وفاق صوبوں کی اکائی کا نام ہے ، مگر فنڈز کی تقسیم اور اختیارات کو جواز بنا کر وفاق اور صوبے باہمی اختلافات کا شکار رہتے ہیں، یہ اختلافات اس وقت شدت اختیار کر جاتے ہیں جب وفاق اور صوبے میں الگ الگ سیاسی جماعتوں کی حکومت ہو، اس وقت وفاق میں تحریک انصاف کی حکومت ہے، پنجاب ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں تحریک انصاف کی حکومت ہے، ان تینوں صوبوں کو وفاق سے کوئی گلہ نہیں ہے مگر سندھ میں چونکہ پیپلز پارٹی کی حکومت ہے تو صوبے اور وفاق کو ایک دوسرے سے شکوہ ہے، وفاق اور صوبوں کے درمیان باہمی تعاون اور ہم آہنگی نہ ہونے کی وجہ سے ملک و قوم کانقصان ہوتا ہے، جب اٹھارھویں ترمیم کے تحت صوبوں کو اختیار مل گیا ہے تو اس تناظر میں وفاق کو صوبوں کے معاملات میں مداخلت سے گریز کرنا چاہیے۔
اگر وفاق کو لگتا ہے کہ صوبے ترقیاتی کاموں میں یا عوام کی خدمت میں عدم دلچسپی کا مظاہرہ کر رہے ہیں تو آئین کے تحت وزیر اعظم کو متعلقہ صوبے کے وزیراعلیٰ سے استفسار کا حق حاصل ہے، تاہم ہمارے ہاں باہمی تعاون اور مشاورت سے فیصلوں کا فقدان دیکھنے کو ملتا ہے ، وفاق اور صوبے میں سیاست شروع ہو جاتی ہے، ملک و قوم کے مفادکو سامنے رکھ کر فیصلے کرنے کی بجائے سیاسی مفادات کو مدِنظر رکھ کر فیصلے کیے جاتے ہیں، کراچی میں بھی ایک عرصے سے یہی ہو رہا ہے۔ وفاقی حکومت نے حال ہی میں کراچی کے لیے گرین لائن منصوبے کا افتتاح کیا ہے جس سے کراچی کے شہریوں کو معیاری سفری سہولیات میسر ہوں گی مگر اس اہم موقع پر بھی وفاق اور صوبے کی قیادت الگ الگ کریڈٹ لینے کی کوشش کرتی رہی، حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جب ملک اور عوام کے لیے کوئی اچھا منصوبہ پایۂ تکمیل کو پہنچتا ہے تو سبھی جماعتیں اس پر خوشی کا اظہار کریں ، جس جماعت نے جس قدر کوشش کی ہے، اسے اس کا کریڈٹ دیا جانا چاہیے۔ اہل سیاست کو منفی طرز عمل کو ترک کر کے ایسی روایت کو فروغ دینا ہو گا جس سے مجموعی طور پر ملک اور عوام کا فائدہ ہو۔