پاکستان خود مختار ملک کیسے بنے گا؟
وزیر اعظم عمران خان نے میانوالی میں منعقدہ تقریب سے خطاب میں پاکستان کو خود مختار ملک بنانے کے عزم کا اظہار کیا ہے، انہوں نے کہا کہ تمام دائیں، بائیں بازئوں کے گروپوں، بلوچستان اور وزیرستان کے لوگوں سے بات چیت کے ذریعے مسائل حل کریں گے ، تاہم جنہوں نے اقتدار میں آ کر پیسہ چوری کیا ان سے نہ مفاہمت ہو گی ، اور نہ ہی انہیں این آر او دیں گے، قانون کی حکمرانی اور فلاحی ریاست ان دو نظریوں پر پاکستان کو عظیم بنائیں گے۔
وزیر اعظم عمران خان تحریک طالبان پاکستان سمیت دیگر شدت پسند گروپوں کو قومی دھارے میں لانے کے عزائم کا متعدد بار اظہار کر چکے ہیں، اس ضمن میں سیاسی جماعتوں کی طرف سے ان پر تنقید بھی کی جاتی ہے، تاہم میانوالی میں انہوں نے کہا کہ دائیں، بائیں بازو کے تمام گروپوں کے ساتھ بات چیت کی جائے گی ، اس کا مطلب یہ ہے کہ ریاست شدت پسند عناصر کو قومی دھارے میں لانے کے لیے لچک کا مظاہرہ کر رہی ہے۔
ریاست کی طرف سے لچک کا مظاہرہ اس لیے بھی کیا جا رہا ہے تاکہ اگر کل ریاست شرپسند عناصر کے خلاف کوئی بڑا فیصلہ کرتی ہے تو کچھ حلقوں کی طرف سے یہ نہ کہا جائے کہ قومی دھارے میں لانے کیلئے انہیں کوئی موقع نہیں دیا گیا۔ وزیر اعظم عمران خان نے بلوچستان کا بالخصوص ذکر کیا مگر ’’گوادر کو حق دو‘‘ کا نعرہ لگا کر سراپا احتجاج سینکڑوں خواتین و حضرات کے مطالبات پر کوئی ردعمل نہیں دیا، حالانکہ یہ بہت اہم مسئلہ ہے، سی پیک کی اہمیت کے تناظر میں ضروری ہے کہ گوادر کے مکینوں کے تحفظات کو دور کیا جائے گا۔
وزیر اعظم عمران خان جہاں شدت پسند عناصر کو قومی دھارے میں لانے کیلئے لچک کا مظاہرہ کر رہے ہیں وہاں پر اقتدار کی آڑ میں پیسہ چوری کرنے والوں کے لیے کسی قسم کی نرمی اور لچک کا مظاہرہ نہیں کر رہے ہیں، اقتدار میں آنے سے پہلے وہ کرپٹ افراد کے خلاف جو عزائم رکھتے تھے، وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد بھی ان کے عزائم ویسے ہی برقرار ہیں ، تاہم غور طلب امر یہ ہے کہ جب وزیر اعظم عمران خان نے اقتدار سنبھالا تو اپوزیشن رہنمائوں کو کرپشن اور احتساب کے نام پر گرفتار کر کے پابند سلاسل کیا گیا، تحقیقات کا طویل سلسلہ چلا، کئی اپوزیشن لیڈر تو اب بھی پیشیاں بھگت رہے ہیں لیکن کرپشن ثابت نہ ہو سکی اور اعلیٰ عدالتوں سے انہیں ریلیف مل گیا۔ اعلیٰ عدالتوں سے ریلیف کے بعد اپوزیشن رہنما عوام کے سامنے اپنی بے گناہی ثابت کر رہے ہیں، سو اس تناظر میں عوام کنفیوژن کا شکار ہیں کہ اگر اپوزیشن رہنمائوں نے واقعی کرپشن کی ہے اور وہ زیرِ حراست بھی رہے ہیں تو انہیں سزائیں کیوں نہیں دی جا رہی ہیں؟
تحریک انصاف اپنے دور حکومت میں اگر اپوزیشن رہنمائوں کو سزائیں دلوانے میں کامیاب نہ ہو سکی تو عوام میں یہ تاثر گہرا ہو جائے گا کہ حکومت و اقتدار کے باوجود کرپٹ سیاستدانوں کو سزائیں نہ دینے کا نعرہ محض سیاسی تھا۔
وزیر اعظم عمران خان نے اس موقع پر یہ بھی کہا کہ 50ہزار سے کم آمدن والے افراد کو راشن پر 30فیصد رعایت دیں گے ، کامیاب پاکستان پروگرا م کے تحت 20لاکھ خاندانوں کو بلا سود قرض دیں گے، پروگرام میں گھر بنانے کے لیے بلا سود قرض ملے گا ، ہیلتھ انشورنس کارڈ مارچ تک پنجاب کے تمام خاندانوں کو ملے گا، جس میں ہر خاندان کے پاس 10لاکھ تک ہیلتھ انشورنس ہو گی۔ کم آمدن والے افراد کے لیے تحریک انصاف کی حکومت کے اقدامات خوش آئند ہیں۔ اس سے لوگوں کو دو وقت کی روٹی دستیاب ہو رہی ہے، اسی طرح ہیلتھ انشورنس کارڈ کی فراہمی بھی احسن اقدام ہے مگر جب مارچ 2022ء میں عوام کو کارڈ فراہمی کا سلسلہ شروع ہو گا تو ایک سال میں بمشکل عوام کو کارڈ فراہم کیا جا سکے گا ، تب تک شاید تحریک انصاف کی حکومت کی مدت ختم ہو جائے، یوں خدشہ ہے کہ عوام کی بڑی تعداد ہیلتھ کارڈ ہونے کے باوجود اس سے مستفید نہیں ہو سکے گی، سو ضروری ہے کہ ہنگامی بنیادوں پر عوام کو ہیلتھ کارڈ فراہم کر دیا جائے تاکہ عوام کو صحت کی سہولیات میسر ہو سکیں۔ پاکستان کو خود مختار ملک بنانے کے عزم کا اظہار ہر دور میں کیا جاتا رہا ہے، مگر ایسے اقدامات نعروں تک محدود رہے جس سے کوئی بھی ملک خود مختار بن سکتا ہے، اس لئے ضروری ہے کہ وعدوں اور نعروں سے آگے سوچ کر عملی اقدامات اٹھائے جائیں۔