اک غلطی نے زندگی بدل دی
انسان جب صحیح سلامت اور تندرست ہوتا ہے تو اللہ کی ذات سے غافل اور اپنی حقیقت بھول جاتا ہے۔ لیکن جب کسی مصیبت یا پریشانی میں مبتلا ہوتا ہے تو اُسے اللہ کی یاد آتی ہے اور پھر عاجزی و انکساری سے گڑگڑا کر اللہ سے دعائیں مانگتا ہے۔ یہ کہانی ایک ایسی لڑکی کی جو زندگی کی رنگا رنگی میں کھوئی ہوئی تھی لیکن جب اُسے پتا چلا کہ اسے ناقابل علاج اور جان لیوا بیماری ہے تو اس خبر نے اس کی زندگی کو بدل کر رکھ دیا۔ اس پر کیا بیتی آئیے اسی کی زبان معلوم کرتے ہیں۔
میرا تعلق عرب کے ایک انتہائی قبیلے سے ہے اور ہم دارالحکومت کے پوش علاقے میں رہتے ہیں ۔ہم صرف نام کے مسلمان ہیں اور اسلامی احکامات سے کوئی سروکار نہیں‘ مغربی تہذیب میں رنگے ہم عربی کی بجائے فرانسیسی میں گفتگو کرنے کو ترجیح دیتے۔
ایک مرتبہ میں ہسپتال میں بلڈ ٹیسٹ کیلئے گئی ‘ رپورٹ آئی تو ایڈز کا سن کر آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ ہسپتال سے انچارج کی منت سماجت کی کہ خبر اپنے تک رکھنا‘ بیماری سے چھٹکارے کیلئے ہر ممکن کوشش کروں گی اور بیرون ملک جانا پڑا تو بھی جائوں گی۔ ڈاکٹر کی طرف سے ہر قسم کے تعاون کی یقین دہانی کے باوجود خوف کی وجہ سے میرا سارا جسم لرز رہا تھا۔میری راتوں کی نیند اُڑ چکی تھی اور پریشانی کی وجہ سے کھانے پینے سے جی اُچاٹ ہو چکا تھا۔ جب انسان سارے دنیاوی سہاروں سے مایوس ہو جاتا ہے تو وہ اللہ کی بارگاہ کی طرف لوٹتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
ترجمہ: ’’اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا۔‘‘
میں نے اپنی گزشتہ زندگی پر نگاہ دوڑائی اور ایک ایک گناہ کا جائزہ لے کر ان پر پیشمانی کا اظہار کرتے ہوئے صدق دل سے اللہ سے معافی مانگی ۔ اس عزم کے بعد میری حالت کچھ سنبھل گئی۔ اگلی صبح زندگی میں پہلی مرتبہ اٹھ کر صبح کی نماز پڑھی اور عاجزی و انکساری اور سسکیوں کے ساتھ گناہوں کی معافی مانگی اور اپنی شفایابی کیلئے دعا کی۔ ہمارے گھر میں قرآن مجید موجود نہیں تھا‘ میں اسی دن بازار گئی اور قرآن مجید کا ایک نسخہ خرید کر لائی۔ میری زندگی بدل چکی تھی ‘ اب میں باقاعدگی سے نماز ادا کرتی تھی۔ میں نے پردہ بھی شروع کر دیا‘ میں زندگی میں اس تبدیلی پر سب حیران و پریشان تھے کہ مجھے کیا ہوا۔ سب مجھ سے یہی سوال کرتے کہ کیا ماجرا ہے؟ میں سوالات کر کے الٹا انہیں لاجواب کر دیتی۔
اس واقعہ کو ایک ماہ گزر گیا اور میرے شب و روز اسلامی شریعت کے مطابق گزر رہے تھے۔ اس ایک ماہ میں مجھے موذی بیماری کے کوئی آثار نظر نہ آئے بلکہ جب سے قرآن دل سے لگایا مجھے ذہنی سکون ملا اور میری زندگی میں نسبتاً اطمینان آیا تھا۔ شرعی اصولوں کے عین مطابق شب و روز گزارنے سے میری صحت پہلے سے بھی قدرے بہتر ہو گئی تھی۔ پھر ایک صبح ایک فون کال نے میری زندگی میں دوبارہ تلاطم برپا کر دیا۔ کال سن کر میں نے جائے نماز بچھائی اور سجدے میں گر گئی اور پتہ نہیں کب تک سجدے میں گر کر اللہ کا شکر ادا کرتی رہی۔
فون لائن پر دوسری جانب وہی مہربان ہسپتال کے ڈائریکٹر تھے‘ وہ کہنے لگے کہ بیٹی! میں بہت شرمندہ ہوں‘ مجھے الفاظ نہیں مل رہے کہ میں کیسے آپ سے معذرت کروں؟ پتہ نہیں اتنی سنگین غلطی کیسے ہو گئی؟ انہوں نے بتایا کہ لیب اٹینڈنٹ کی غلطی کی وجہ سے رپورٹ تبدیل ہو گئی تھی ‘ آپ کی رپورٹ بالکل کلیئر ہے‘ وہ رپورٹ کسی اور شخص کی تھی ۔ ان کی بات سنتے ہی مجھے ایسا لگا کہ میرادل خوشی سے اچھل کر باہر آ جائے گا۔ میں نے خود کو فضائوں میں تیرتا ہوا محسوس کیا۔ میرے دل و دماغ کا سارا بوجھ اُتر گیا طبیعت میں ایسا سرور و بشاشت آ گئی کہ شاید کسی بڑے مدبر و مفکر کو بھی اس کیفیت کو بیان کرنے کے لیے الفاظ نہ ملیں ۔ میں تو ایک نوعمر سٹوڈنٹ ہوں ‘ میں اس کیفیت کو کیسے بیان کر سکتی ہوں؟ !میری آنکھوں سے آنسوئوں کی جھڑی لگی ہوئی تھی۔ یہ خوشی اور تشکر کے آنسو تھے۔ میں نے جی بھر کر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور اپنے عہد کو دہرایا کہ یہ غلط فہمی میری زندگی میں جو مثبت تبدیلی لائی ہے ‘ اس پر دائمی طور پر قائم رہوں گی اور اپنی زندگی کی طرف لوٹ کر نہیں جائوں گی۔
(العائدون الی اللہ، ج: 6، ص 83، 84، تألیف: محمد بن عبدالعزیز المسند)