گھر کے دو ووٹ سے جیتی بازی ہار گئے ہم
ضلع مانسہرہ کی تحصیل بفہ کی یونین کونسل ترنگڑی میں بلدیاتی انتخابات ہو رہے تھے۔ سسر صاحب ایک امیدوار کی الیکشن مہم چلا رہے تھے جبکہ ماموں سسر یعنی بیگم صاحبہ کے ماموں مخالف امیدوار کے حامی و حمایتی تھی۔ دونوں سسرالیوں کی جانب سے اپنے اپنے امیدواروں کے حق میں ووٹرز کو قائل کرنے کے لیے ان کی خوبیوں اور عوامی خدمت کے آئندہ کے منصوبوں کو بیان کیا رہا تھا۔
امیدواروں کی جانب سے بھی سسر اور ماموں سسر کو فتح کی صورت میں سنہرے مستقبل، بچوں کو سرکاری نوکری دلوانے اور علاقے کی تعمیر و ترقی کے سہانے خواب دکھائے گئے تھے اس لیے دونوں سپورٹرز اپنے اپنے امیدوار کی فتح کے لیے تن من دھن کی بازی لگانے کے لیے تیار بیٹھے تھے۔ دونوں اطراف سے اپنے اپنے ووٹرز کے حق میں رنگ برنگے نعرے گھڑے گئے تھے جو پوسٹرز کی زینت بننے کے علاوہ متعلقہ علاقے کی گلی محلوں میں گونجتے سنائی دیتے۔
سسر کے امیدوار کا انتخابی نشان دنبہ جب کہ ماموں سسر کے امیدوار کا انتخابی نشان انگور کا گچھہ تھا۔ دن گزرتے رہے اور آخر کار الیکشن کا دن آن پہنچا۔ سسر اور ماموں سسر ووٹرز کو اپنے اپنے امیدوار کے حق میں ووٹ ڈلوانے کے لیے قائل کے سلسلے میں صبح ہی گھر سے نکل گئے تھے۔
اسی الیکشن مہم کے دوران ماموں سسر کا اپنی بہن یعنی ہماری ساس صاحبہ کے گھر کی طرف سے گزر ہوا تو انہوں نے سوچا کہ چلو ادھر سے گزر ہی رہا ہوں تو بہن کا حال احوال بھی پوچھتا چلوں۔ گاڑی گھر کے قریب پارک کی اور گھر کے اندر چلے گئے۔ ساس صاحبہ کی جانب سے اپنے بھائی کی چائے سے تواضع کی گئی۔ دوران گفتگو ماموں سسر نے گھر میں موجود اپنی بہن اور بھانجی سے دریافت کیا کہ کیا آپ لوگوں نے ووٹ کاسٹ کیا ہے؟
ساس صاحبہ بولیں کہ لڑکوں نے تو ووٹ کاسٹ کر لیا لیکن میں اور آپ کی بھانجی رہتی ہیں۔ پولنگ سٹیشن چونکہ کافی دور ہے اس لیے ہم پیدل نہیں جا سکتیں۔ جب اس کے ابو گاڑی لے کر آئیں گے تو ہم ووٹ کاسٹ کرنے چلیں گی۔ ماموں سسر بولے کہ پھر تو ووٹنگ کا ٹائم ہی ختم ہو جائے گا، میری گاڑی حاضر ہے میں آپ دونوں کو لے چلتا ہوں۔ انہوں نے یہ آفر قبول کر لی۔
پولنگ سٹیشن کی طرف جاتے ہوئے ماموں سسر کی جانب سے ساس صاحبہ کو کہلوایا گیا اور ان سے کہا گیا کہ وہ انگور پر مہر لگائیں جبکہ ہمارے سسر کے امیدوار کا انتخابی نشان دنبہ تھا۔ ساس صاحبہ جو پہلے بھائی کی گاڑی میں پولنگ سٹیشن تک آئیں، پھر ان سے کچھ کھا پیا بھی لیا، مارے مروت کے انکار نہ کر سکیں اور انہوں نے اپنے بھائی کے کہنے کے مطابق انگور پر مہر لگائی۔ ماموں سسر نے اپنی گاڑی میں بہن اور بھانجی کو واپس گھر چھوڑا۔ اسی اثنا میں سسر صاحب بھی انہیں ووٹ کاسٹ کرنے لیے لے جانے کیلئے گھر پہنچ گئے۔ ساس صاحبہ نے بتایا کہ وہ دونوں ماموں سسر کی گاڑی میں جا کر ووٹ پول کر آئی ہیں، تاہم انہوں نے انگور پر مہر لگائی ہے۔ یہ سن کر سسر صاحب نے سر پیٹ لیا کہ باہر لوگوں کو دنبے پر مہر لگانے کیلئے قائل کرتا رہا لیکن میری اپنی بیگم اور بیٹی انگور پر مہر لگا آئیں۔
ساس صاحبہ بولیں کہ ہمارے دو ووٹوں سے کیا فرق پڑے گا۔ شام کو الیکشن کے نتائج کا اعلان ہوا تو جس امیدوار کا انتخابی نشان انگور کا گچھہ تھا وہ دو ووٹ سے فاتح قرار پایا تھا۔ سسر صاحب بڑے اداس تھے۔ وہ بار بار بیوی اور بیٹی سے کہتے کہ آپ دونوں ہماری شکست کی ذمہ دار ہو۔ آپ دنبے کو ووٹ دیتیں یا کم از کم ووٹ دینے نہ جاتیں تو ہم جیت جاتے۔ کافی عرصہ تک ساس صاحبہ کو یہ طعنہ دیا جاتا رہا۔ وہ کہتے کہ تمہاری وجہ سے ہمارا مستقبل تاریک ہو گیا۔
ایک دفعہ ہماری موجودگی میں سسر صاحب نے ساس صاحبہ کو اپنی ہار کا ذمہ دار قرار دیا تو ہم نے دریافت کیا:”کیا جیتنے والے امیدوار نے ماموں سے کیے گئے وعدوں میں سے کوئی ایک بھی اب تک پورا کیا ہے؟”بولے: "نہیں۔”
ہم نے سسر صاحب سے کہا کہ اگر آپ کا امیدوار جیت جاتا تو آپ کے ساتھ بھی یہی ہونا تھا۔ تب جا کر ساس صاحبہ کی اس طعنہ سے خلاصی ہوئی۔