یہ ہے سوچنے کی بات اس کو بار بار سوچ!
ابن رشد اندلسی سے کون واقف نہیں۔ وہ علم فلسفہ کے امام اور اپنے زمانے کے سب سے بڑے مفکر سمجھے جاتے ہیں، ان کی پیدائش سر زمین اندلس کے معروف شہر قرطبہ میں1126ء میں ہوئی۔ یہ ایک علمی خاندان کے چشم و چراغ تھے۔ ان کے دادا محمد بن احمد اپنے زمانے کے جید علماء میں سے تھے، فقہ و فتویٰ میں ان کا اعلیٰ مقام تھا۔ بعد میں قرطبہ کے جج بھی مقرر ہوئے۔ اسی طرح ابن رشد کے والد احمد بن محمد بھی علم میں اپنے ہم عصروں پر فائق تھے۔ وہ قرطبہ میں جج کے عہدے پر فائز رہے۔
ابن رشد کے بارے میں آتا ہے کہ وہ اپنے والد کی بے حد عزت کرتے تھے، وہ دنیا کے سب سے بڑے فلسفی اور مفکر سمجھے جاتے تھے، مگر جہاں ان کے والد کی بات آتی وہ فوراً سر تسلیم خم کر دیا کرتے تھے۔ ابن رشد کو نہ صرف ان کی زندگی میں بلکہ بعد کے ادوار میں بھی بہت بلند مقام اور شہرت ملی، انہوں نے اپنے علم کا سکہ منوانے کے لیے زبردست محنت و مشقت اور وقت کا بھرپور استعمال کیا۔ انہوں نے اپنی زندگی میں کبھی مطالعہ ترک نہیں کیا۔ انہیں اچھی طرح معلوم تھا کہ اعلیٰ علمی معیار برقرار رکھنے اور اہلِ دنیا کے سامنے مضبوط فلسفہ پیش کرنے کے لیے ضروری ہے کہ مدلل اور معقول باتیں کی جائیں۔ یہ اسی وقت ممکن تھا جبکہ خود کو کتابوں ہی کی دنیا کیلئے وقف کر دیا جائے۔
ابن رشد نے اپنے استاد ارسطو کے فلسفہ سے خوب خوب فائدہ اٹھایا۔ کہتے ہیں کہ ارسطو کے فلسفہ کا ابن رشد سے بہتر شارح نہیں دیکھا گیا۔ ابن رشد کے اخلاق اور صفاتِ حمیدہ میں سے جو کچھ بیان کیا جاتا ہے ان میں وہ تمام اوصافِ حمیدہ شامل ہیں جو ایک اچھے انسان کے ہو سکتے ہیں، البتہ ان میں ایک اور نادر وصف بھی تھا جو ان کے اخلاق کریمانہ کے موتیوں میں سب سے زیادہ جگمگاتا تھا۔ وہ تھا والد کے ساتھ ان کی بے لوث محبت اور بے تحاشا لگائو۔ مؤرخین نے ان کی سوانح حیات میں لکھا ہے کہ جب سے ابن رشد نے ہوش سنبھالا، انہوں نے زندگی بھر مطالعہ ترک نہیں کیا۔ انہیں اچھی طرح معلوم تھا کہ ان کے دور میں فلسفہ کے ذریعے اسلام پر جو فکری یلغار ہو رہی ہے، اس کے دفاع میں مضبوط ہتھیار اسی وقت مہیا کیے جا سکتے ہیں جبکہ وقیع علمی کتابوں کا مطالعہ کیا جائے۔ اگر یہ کہا جائے تو زیادہ مناسب ہو گا کہ کتابیں پڑھنا ہی ان کا وظیفہ حیات تھا۔ کتب بینی کو انہوں نے اپنی زندگی کا اصول بنا لیا تھا جسے وہ کسی بھی حال میں توڑنے کے لیے تیار نہ تھے۔
یہ بات دنیا بھر میں ان ہی کے زمانے میں مشہور ہو گئی کہ ابن رشد اور مطالعہ لازم اور ملزوم ہیں۔ لیکن ابن رشد کو پوری زندگی میں اپنا اصول توڑنے پر صرف دو مرتبہ مجبور ہونا پڑا۔ ایک اس دن جس دن ان کے والد احمد بن محمد قرطبی کا انتقال ہوا تھا اور دوسرا وہ دن ہے جس دن ان کی شادی ہوئی۔ ان کی پوری زندگی میں یہی دو دن ایسے گزرے جن میں وہ کتابوں کا مطالعہ نہیں کر سکے۔ ان کی معروف کتاب’’بدایۃ المجتھد و نھایۃ المقتصد‘‘ میں لکھا ہوا ہے:
’’ ابن رشد نے جب سے ہوش سنبھالا کتب بینی سے صرف دو ہی رات محروم رہے، ایک اس رات جس میں ان کے والد کا انتقال ہوا اور دوسری اپنی سہاگ رات۔‘‘
ابن رشد کے بارے میں تو بہت کچھ لکھا اور پڑھا جاتا رہے گا۔ یہاں قارئین کرام کو ان کے بارے میں یہ بتلانا مقصود ہے کہ اتنے بڑے فلسفہ کے امام بھی اپنے والد کی اس قدر عزت کرتے تھے کہ ان کے سامنے معمولی آدمی بلکہ ایک بچے کی طرح رہتے تھے۔ جب اتنے بڑے عالم، فلسفی اور مفکر کا اپنے والد کے سامنے یہ حال تھا تو ہم لوگوں کو اپنے والدین کے سامنے کس قدر تواضع اور انکسار سے رہنا چاہئے؟ یہ ہے سوچنے کی بات، اس کو بار بار سوچ!