یوم وفات سیدہ فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: حضرت فاطمہؓ کے رنج سے مجھے رنج ہوتا ہے اور اس کی تکلیف سے مجھے تکلیف ہوتی ہے۔(مسلم)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا تمام اہل خانہ سے زیادہ عزیز تھیں۔سیدہ کائنات تمام عالمین کی عورتوں کی سردار ہیں۔ عورت کے مقام کو اجاگر کرنے کے لئے سیدہ کائنات کا وجود نہایت اہم سنگ میل کی حیثیت کا حامل ہے۔ آپ کا کامل اسوہ حسنہ دنیا و آخرت میں سرخروئی و سرفرازی کا پروانہ ہے۔ مومنین کی مائیں بہنیں بیٹیاں اور بیبیاں جس ہستی سے مکمل رہنمائی حاصل کرسکتی ہیں وہ سیدہ کائنات حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کی ذات مبارکہ ہے۔حضرت فاطمہ زہرا ؓ کی ولادت بعثت نبوی سے تقریباً پانچ سال قبل حضرت خدیجہؓ کے بطن سے مکہ مکرمہ میں ہوئی۔ حضرت فاطمہ ؓکی ولادت کے وقت نبی اکرم ؐکی عمر تقریباً 35سال تھی ۔ اور یہ وہ وقت تھا جب کعبہ کی تعمیر نو ہورہی تھی۔ اسی تعمیر کے موقع پر حضورؐ نے بہترین تدبیر کے ساتھ حجر اسود کو اس کی جگہ رکھ کر باہمی جنگ کے بہت بڑے خطرے کو ٹالا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس تدبیر نے عرب کے تمام قبائل میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت واحترام میں اضافہ کردیا تھا۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام اولاد نرینہ کی وفات بالکل بچپن ہی میں ہوگئی تھی چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تینوں بیٹوں میں سے کوئی بھی بیٹا تین سال سے زیادہ حیات نہ رہ سکا۔ چاروں بیٹیوں میں سے بھی تین کی وفات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ ہی میں ہوگئی تھی۔ حضرت فاطمہؓ کا انتقال آپ کی وفات کے چھ ماہ بعد ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چاروں بیٹیوں میں سے کوئی بھی بیٹی 30سال سے زیادہ با حیات نہ رہ سکی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے آخری سالوں میں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توجہات ومحبت کا مرکز فطری طور پر حضرت فاطمہؓ بن گئی تھیں، یوں بھی وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت ہی چہیتی بیٹی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چاروں بیٹیاں مدینہ منورہ کے مشہور قبرستان البقیع میں مدفون ہیں۔
حضرت فاطمہ زہرا ؓنے اپنی والدہ ماجدہ حضرت خدیجہ ؓکے زیر سایہ تربیت اور پرورش پائی۔ ابھی حضرت فاطمہؓ 15سال کی تھیں کہ ماں کی شفقت سے محروم ہوگئیں۔حضرت خدیجہؓ کے انتقال کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہؓ کی خصوصی تربیت فرمائی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مربیہ حضرت ام ایمنؓ اور حضرت علیؓ کی والدہ: حضرت فاطمہؓ بنت اسد نے بھی حضرت فاطمہؓ کی تربیت اور پرورش میں ایک اہم کردار ادا کیا۔ ان کے علاوہ حضرت فاطمہؓ کی بہنوں نے بھی حضرت فاطمہ ؓکی ہمہ وقت دل جوئی فرمائی ۔
حضرت فاطمہؓ کی نبی کریم ؐ سے مشابہت
حضرت فاطمہؓ جس وقت چلتیں تو آپ کی چال ڈھال رسولؐ اللہ کے بالکل مشابہ ہوتی تھی(مسلم)اسی طرح حضرت عائشہؓ کی روایت ہے کہ میں نے اٹھنے بیٹھنے اور عادات واطوار میں حضرت فاطمہؓ سے زیادہ کسی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشابہ نہیں دیکھا۔ (ترمذی)غرضیکہ حضرت فاطمہؓ کی چال ڈھال اور گفتگو وغیرہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جھلک نمایاں نظر آتی تھی۔
حضرت فاطمہؓ کی دلیری اور ثابت قدمی
حضرت فاطمہ زہرا ؓبچپن سے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑی خدمت کرتی تھیں ۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓفرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد حرام میں نماز پڑھ رہے تھے، قریش کے چند بدمعاشوں نے شرارت کی غرض سے اونٹ کی اوجھڑی لاکر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ڈال دی اور خوشی سے تالیاں بجانے لگے۔ کسی نے حضرت فاطمہؓکو خبر دی تو وہ دوڑی دوڑی آئیں اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر سے اوجھڑی کو اتار کر پھینکا۔
اسی طرح ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کی ایک گلی سے گزر رہے تھے کہ کسی بدبخت نے مکان کی چھت سے آپ کے سر مبارک پر گندگی پھینک دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی حالت میں گھر تشریف لائے۔ حضرت فاطمہ ؓنے یہ حالت دیکھی تو رونے لگیں اور پھر سر مبارک اور کپڑوں کو دھویا۔
حضرت فاطمہؓ نہ صرف عمومی حالات میں بلکہ سخت ترین حالات میں بھی نہایت دلیری اور ثابت قدمی سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کرتی تھیں چنانچہ جنگ احد میں جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دندان مبارک شہید ہوگئے تھے اور پیشانی پر بھی زخم آئے تھے تو حضرت فاطمہؓ احد کے میدان پہنچیں اور اپنے والد محترم کے چہرے کو پانی سے دھویا اور خون صاف کیا۔ غرضیکہ حضرت فاطمہؓ نے اپنے والد کی خدمت کا حق ادا کیا۔