پیٹرول پر سبسڈی: حقیقت کیا، فسانہ کیا؟

حکومت نے پیٹرول پر سبسڈی دینے کا اعلان کیا ہے، ظاہر یہ کیا جا رہا ہے کہ حکومت کو غریب طبقے کی فکر کھائے جا رہی ہے اس لئے موٹر سائیکل، رکشہ اور آٹھ سو سی سی کار والے صارفین کو سبسڈی دی جائے گی جس کی ترتیب کچھ یوں بتائی گئی ہے کہ موٹر سائیکل اور رکشہ کیلئے 100 روپے سستا پیٹرول مہیا کیا جائے گا۔ حکومت نے اپنے طور پر ایک تخمینہ پیش کیا ہے کہ ایک موٹر سائیل سوار ماہانہ اکیس لیٹر پیٹرول استمعال کرتا ہے، لہذا حکومت نے ماہانہ تیس لیٹر پیٹرول پر سبسڈی دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ موٹر سائیکل سواروں کو ایک وقت میں دو سے تین لیٹر جبکہ 800سی سی یا اس سے کم گاڑی والوں کو پانچ سے ساٹ لیٹر پیٹرول فراہم کیا جائے گا۔ قطع نظر اس بات کے کہ یہ منصوبہ کامیاب ہو گا یا نہیں؟ بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا واقعی حکومت پیٹرول پر اپنی طرف سے سبسڈی دینے جا رہی ہے؟

سبسڈی کے اعلان میں اس لئے حقیقت نہیں ہے کہ یہ فوری نافذ العمل نہیں ہے کہا گیا ہے کہ چھ ہفتوں میں اس پر عمل درآمد کی کوشش کی جائے گی۔ منصوبہ بندی یہ کی گئی ہے کہ موٹر سائیکل اور رکشہ صارفین کے علاوہ باقی صارفین کو پیٹرول مزید مہنگا کر کے جو بچت ہو گی وہ غریب صارفین کو دی جائے گی، مطلب یہ ہوا کہ حکومت اپنی طرف سے کچھ بھی نہیں کر رہی ہے نہ ہی آئی ایم ایف نے پیٹرول پر سبسڈی دینے پر رضا مندی ظاہر کی ہے۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ 80فیصد عوام مہنگا بلکہ شدید مہنگا پیٹرول خریدنے پر مجبور ہوں گے۔

غذائی اشیاء پر سبسڈی سمجھ میں آنے والی بات ہے کیونکہ دو وقت کی روٹی ہر شہری کی بنیادی ضرورت ہے، درجنوں ممالک میں کھانے پینے کی اشیاء بالخصوص بریڈ کی قیمتوں میں برسوں تک اضافہ نہیں کیا جاتا ہے، تاہم پیٹرول پر سبسڈی کی کوئی مثال موجود نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پیٹرول کی بچت کی وجہ سے بہت سے صاحب حیثیت لوگوں نے چھ سو ساٹھ سی سی چھوٹی جاپانی گاڑیاں رکھی ہوئی ہیں، کہنے کو تو یہ چھوٹی گاڑیاں ہیں اس حکومتی فارمولے کے تحت انہیں سبسڈی بھی ملنی چاہئے مگر یہ جاپانی گاڑیاں قیمت کے اعتبار سے بڑی گاڑیوں سے بھی مہنگی ہیں، اس لئے حکومت غریبوں کو پیٹرول پر جو سبسڈی دینے کا منصوبہ بنانے جا رہی ہے اس سے امیر لوگ مستفید ہوں گے، اور کئی لوگوں پر اضافہ بوجھ آن پڑے گا۔  

مہذب معاشروں میں ضروریات زندگی کی اشیاء کی عام مارکیٹ میں آسان دستیابی یقینی بنائی جاتی ہے، مارکیٹ میں عوام کیلئے یکساں نرخ ہوتے ہیں، حکومت نے اپنا بوجھ کم کرنے کیلئے 80 فیصد لوگوں پر بوجھ ڈال دیا ہے، جو کرنے کا کام تھا وہ نہیں کیا گیا، ہونا یہ چاہئے کہ حکومت ٹیکس وصولی کی خامیوں کو دور کرتی ہے، ٹیکس کی شرح بلند ہوتی تو سرکاری خزانہ ریلیف دینے کی پوزیشن میں ہوتا، مگر بوجوہ ٹیکس وصولی میں اضافہ نہیں ہو پایا ہے، بلکہ ہمارے یہاں ٹیکس دینے کا رواج ہی نہیں ہے اسی لئے جنرل سیلز ٹیکس کی شرح بھی بلند ہے۔

پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ جس چیز پر معمولی سی سبسڈی دی جاتی ہے وہ ذخیرہ ہونا شروع ہو جاتی ہے، چینی، آٹا اور یوٹیلٹی سٹور پر رعایتی نرخوں پر ملنے والی اشیا عام مارکیٹ میں پوری قیمت میں فروخت کیلئے موجود ہوتی ہیں۔ رعایتی نرخوں پر ملنے والا پیٹرول بھی عام مارکیٹ میں فروخت کیلئے آ جائے گا سو یہ کوئی حل نہیں ہے۔ دیرپا حل یہ ہے کہ حکومت لوگوں کو ذرائع آمدن، روزگار کے مواقع اور سرمائے کی گردش یقینی بنائے، معیشت کا پہیہ چلے گا تو فی کس آمدن میں اضافہ ہو گا اور معیار زندگی بلند ہو گا۔

پاکستان کی طرح دیگر ممالک میں بھی مہنگائی قابو سے باہر ہے، ترقی یافتہ ممالک کے شہری بھی مہنگائی کی حالیہ لہر سے پریشان ہیں مگر فی کس آمدن زیادہ ہونے کی وجہ سے ان کیلئے ویسے مسائل نہیں ہیں جن مسائل سے ہم دوچار ہیں، اس لئے وہاں پر ایسی لطیفے دیکھنے کو نہیں ملتے جیسے ہمارے ہاں دیکھنے کو ملتے ہیں۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button