آزاد خالصتان تحریک زور پکڑنے لگی
ہم اب بھی غلام ہیں، ہمارا پانی لوٹا جا رہا ہے، ہمارے گروئوں کی بے حرمتی کی جا رہی ہے۔ پنجاب کے نوجوانوں کو پنتھ (مذہب) کے لیے قربانی دینے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔یہ الفاظ ہیں، وارث پنجاب دے تنظیم کے سربراہ امرت پال سنگھ کے جو انڈیاکی شمالی مغربی ریاست پنچاب میں سکھ رہنماء کے طور پر ابھرے ہیں۔
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے ہندوستان میں مسلمانوں اوردیگراقلیتوں کے ساتھ سِکھ بھی زیرعتاب ہیں جس سے سکھوں کی آزاد خالصتان تحریک پھرسے شروع ہوگئی ہے جبکہ خالصتان کے حامیوں اور پولیس میں تصادم آئے روز کا معمول بن گیاہے ،مودی کے برسراقتدار آنے کے بعدایک طرف بیرونی دنیا میں آزاد خالصتان کی تحریک نے زور پکڑا ہے تو دوسری طرف امرت پال سنگھ جیسے نوجوان مودی کے لیے دردسربن گئے ہیں ۔
ستمبر2021 میں سِکھ برادری کے حقوق کے تحفظ کیلئے وارث پنجاب دے قائم کی گئی تھی،اس تنظیم کے سربراہ دیپ سدھو کی ایک کار حادثے میں موت کے بعد تنظیم کی صدارت امرت پال نے اپنے ہاتھوں میں لی اور سکھوں کے روحانی پیشوا بھنڈرانوالہ کے گائوں میں دستار بندی کی تقریب منعقد کی۔ امرت پال نے اس موقع پر بھنڈرانوالہ کے طرز کا لباس پہن رکھا تھا اور ان کے ہزاروں حامی خالصتان کے حق میں نعرے لگا رہے تھے۔اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے امرت پال نے کہا تھا کہ میں بھنڈرانوالہ سے ترغیب حاصل کرتا ہوں۔ میں ان کے بتائے ہوئے راستے پر چلوں گا۔میں ان کی طرح بننا چاہتا ہوں جو ہر سکھ چاہتا ہے لیکن میں ان کی نقل نہیں کر رہا، میں تو ان کے قدموں کی دھول بھی نہیں ہوں۔
خالصتان حامی انتیس سالہ امرت پال سنگھ سندھو دبئی میں اپنے والد کے ساتھ ٹرانسپورٹ کا کاروبار کرتے ہیں،امرت پال روانی کے ساتھ پنجابی، انگریزی اور ہندی بولتے ہیں، امرت پال کا موازنہ خالصتان حامی جرنیل سنگھ بھنڈرانوالے سے کیا جاتا ہے، جو 1984 میں آپریشن بلیو سٹار میں مارے گئے تھے۔کچھ لوگ انھیں بھنڈرانوالا 2.0 کا نام بھی دیتے ہیں، امرت پال سنگھ نے وزیر داخلہ امیت شاہ کو اندرا گاندھی جیسے انجام کی دھمکی دی تھی مودی سرکار کے دبائو میں آکر گزشتہ سال ٹویٹر اور انسٹا گرام نے امرت پال سکھ کا اکاوئنٹ معطل کر دیا تھا۔
ایک ماہ قبل وارث پنجاب دے کے حامیوں نے امرت پال کی قیادت میں طوفان سنگھ کی گرفتاری کے خلاف اجنالہ پولیس اسٹیشن پر دھاوا بول کرانہیں رہا کروا دیا تھا پولیس سٹیشن پر یلغار سے پہلے نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے امرتپال سنگھ نے کہا کہ اگر کوئی ہندو راشٹر قائم کرنے کی بات کر سکتا ہے اور اس کے حق میں نعرے لگا سکتا ہے۔ اگر لوگ کمیونزم سے ترغیب پا کرکمیونسٹ ریاست قائم کر سکتے ہیں، تو پھر ایک پرامن خالصتان کی تمنا کو جرم کیوں قرار دیا جائے؟ خالصتان حامی نوجوان مبلغ امرت پال کی تیزی سے بڑھتی ہوئی مقبولیت پر سکیورٹی اداروں اور مودی حکومت کو چکرا کر رکھ دیا ہے۔
انڈین حکومت نے امرت پال اوراس کے ساتھیوں کے خلاف آپریشن شروع کر رکھا ہے جس کے خلاف بھارتی پنچاب میں ہنگامے پھوٹ پڑے ہیں پنچاب اور دیگر ریاستوں میں ہائی الرٹ کر دیا گیا ہے بھارتی حکومت مظاہرین کو کچلنے کے لیے پنجاب میں پولیس کی سیکیورٹی بڑھانے سمیت پیرا ملٹری فورس تعینات کررہی ہے اورپنچاب میں عام آدمی کی حکومت ختم کرکے گور نرراج کی تیاریاں بھی کر رہی ہے سکھ مظاہرین کے احتجاج کا دائرہ کاربیرون ملک تک پھیل گیا ہے پیر کے روز برطانیہ کے دارالحکومت لندن میں خالصتان کے حامی سکھ کارکنوں نے ہائی کمیشن پر بھارتی ترنگا اتار کر خالصتان کا جھنڈا لگا دیاسکھ نوجوانوں نے بھارتی وزیر اعظم نریندر سنگھ مودی کیخلاف نعرے لگاتے ہوئے خالصتان کے قیام کا مطالبہ کیا۔
اس سے قبل گزشتہ ماہ خالصتان تحریک کے حامیوں کی جانب سے آسٹریلیا کے شہر برسبین میں بھی بھارتی قونصل خانے پر خالصتانی پرچم لہرایا دیاتھا ،دوسری طرف مغربی ویورپی ممالک میں خالصتان ریفرنڈم مہم بھی تیزی سے جاری ہے خالصتان ریفرنڈم بین الاقوامی ایڈووکیسی گروپ سکھس فار جسٹس (SFJ) کا کمیونٹی سپانسر شدہ الیکشن ہے۔ یہ ایک ریفرنڈم مہم ہے جس میں سکھوں سے اس سوال کا جواب طلب کیا جاتا ہے کہ کیا پنجاب کو ایک آزاد ملک ہونا چاہیے؟2007 میں امریکہ میں سکھس فار جسٹس نامی تنظیم تشکیل دی گئی تھی ۔
اس گروہ کا چہرہ گرپتونت سنگھ پنوں ہیں جو پنجاب یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہیں اور امریکہ میں قانون کی پریکٹس کرتے ہیں۔ وہ اس تنظیم کے قانونی مشیر بھی ہیں۔ انھوں نے خالصتان کی حمایت میں ریفرینڈم 2020 کروانے کی مہم شروع کی تھی ۔پنوں کہتے ہیں کہ اگست 2018 میں لندن اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ یہ تنظیم خالصتان کی حمایت میں دنیا بھر کے سکھوں کی رائے شماری کرے گی۔وہ کہتے ہیں کہ شمالی امریکہ، یورپ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، ملائشیا، فلپائن، سنگاپور، کینیا، مشرقِ وسطی اور انڈین پنجاب میں ریفرینڈم کروانے کے بعد وہ اپنے مقصد کے حصول کے لیے اقوامِ متحدہ کا دروازہ کھٹکھٹائے گی۔
اِس وقت بھارت میں آباد سکھوں کی آبادی اڑھائی سے تین کروڑ جبکہ دیگر ممالک میں پچاس لاکھ کے لگ بھگ ہے، ریفرنڈم کے ساتھ سکھوں نے پہلی بار مجوزہ ملک کا نقشہ بھی جاری کر دیا ہے جس میں پنجاب ،ہریانہ جیسے سکھ اکثریت کے صوبوں کے علاوہ ہماچل پردیش، اترپردیش اور راجھستان جیسے صوبوں کے سکھ اکثریتی اضلاع کو بھی خالصتان کا حصہ دکھایا گیا ہے۔ حالات بتا رہے ہیں کہ بھارت اب خالصتان تحریک کو روکنے میں کامیاب نہیں ہو سکے گا۔ جلد یا بدیر سکھ اپنے مقصد میں ضرور کامیاب ہوں گے۔کشمیر ہو یا آسام اور یا پھر خالصتان، بھارت زیادہ دیرتک ان علاقوں پر قبضہ برقرار نہیں رکھ سکے گا ۔
خالصتان کے قیام سے بھارت کا ریاست جموں و کشمیر پر قبضہ ازخود ختم ہو جائے گا کیونکہ بھارت اور مقبوضہ کشمیر کے درمیان واحد راستہ خالصتان سے ہی گزرتا ہے۔ اس وقت ریاست جموں وکشمیر میں موجود سکھ تحریک آزادی کشمیر کی حمایت کر رہے ہیں جبکہ ممکنہ مملکت خالصتان میں مسلمان خالصتان تحریک کا ساتھ دے رہے ہیں۔31 اکتوبر 2021 کو لندن سے ووٹنگ کے آغاز کے بعد سے، بھارت کے احتجاج کے باوجود، برطانیہ، کینیڈا،آسٹریلیا ،سوئٹزرلینڈ اور اٹلی کی حکومتوں نے خالصتان ریفرنڈم کرانے کی اجازت دی ہے جس میں اب تک 50 لاکھ سے زائد سکھ ووٹ ڈال چکے ہیں۔
سکھ فار جسٹس کی جانب سے دودن قبل آسٹریلیا کے شہر برسبن میں ریفرنڈم ہوا، اس سے قبل میلبرن میں بھی ریفرنڈم کا انعقاد کیا گیا تھا جہاں 50 ہزار سکھوں نے خالصتان کے حق میں ووٹ کیا تھا جبکہ آسٹریلیا میں تیسرا ریفرنڈم رواں برس جون میں منعقد کیا جائے گا۔خالصتان ریفرنڈم رکوانے کے لیے سفارتی ناکامی کے بعد بھارت نے سائبر حملوں کے ذریعے ووٹنگ کے عمل کو متاثر کرنے کوشش کی مگر وہ ناکام رہا، ریفرنڈم میں حصہ لینے والے شرکا کا کہنا ہے کہ ریفرنڈم کے نتائج دنیا پر واضح کر دیں گے کہ سکھ آزادی چاہتے ہیں، بھارتی پنجاب جلد ایک آزاد ملک کے طور پر دنیا کے نقشے پر ابھرے گا، جس کا دارلحکومت شملہ ہوگا بھارت طاقت کے ذریعے سکھوں کو آزادی کے حق سے محروم نہیں کر سکتا۔
سکھ برادری کی جانب سے ایک آزاد ریاست کا مطالبہ پاک بھارت تقسیم کے وقت سے نہیں ہے بلکہ اس کی اپنی ایک الگ تاریخ ہے۔ سب سے پہلے سکھوں کے مذہبی رہنما گرو گوبند سنگھ نے 1699میں سکھوں کے لئے خالصہ کے نام سے ایک علیحدہ ریاست کا تصور پیش کیا تھاکانگرس کے لیڈروں نے 1929 میں سکھ لیڈروں کو یقین دلایا تھا کہ انہیں نیم آزاد ریاست دی جائے گی جہاں انہیں مذہبی آزادی حاصل ہو۔ مگر تقسیم کے بعدانڈین حکومت اپنے وعدے سے منحرف ہو گئی 1966میں پنجاب کو ایک غلط مردم شماری کے بعد تقسیم کر دیا گیا اور ہماچل پردیش اور ہریانہ کی نئی ریاستین بنا دی گئیں۔ جس کے بعدسکھوں نے فیصلہ کیاکہ وہ انڈیا سے آزادی حاصل کریں گے یوں 1969 میں متحدہ بھارتی پنجاب کے سابق وزیر خزانہ سردار جگجیت سنگھ چوہان نے آزاد خالصتان ریاست کا اعلان کیا اور خالصتان تحریک کی بنیاد رکھی۔
خالصتان نیشنل کونسل کے صدر جگجیت سنگھ چوہان خالصتان کا پرچم، پاسپورٹ اور شناختی کارڈ جاری کر دیا، آج بھی خالصتان نیشنل کونسل موجود ہے جس کے ارکان برطانیہ، یورپ، امریکہ اور کینیڈا میں مقیم ہیں۔بھارت کی موجودہ صورتحال میں یہ سوالات نہایت شدت کے ساتھ پوچھے جا رہے ہیں کہ کیا بڑھتی ہندوتوا شدت پسندی کے باعث بھارت خانہ جنگی کی طرف بڑھ رہا ہے؟ اورکیا انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں ہندوستان میں بسنے والے مسلمانوں اور سکھوں پر ہونے والے مظالم کا نوٹس لیں گی؟کیا کشمیرمیں بھارتی مظالم کو رکوانے اور کشمیریوں کو آزادی دلوانے کے لیے اقوم متحدہ اور دیگر عالمی ادارے متحرک ہوں گے ؟