کیا مقبولیت قانون سے بچنے کا پیمانہ ہے؟
قومیں ہر غلطی کی قیمت چکاتی ہیں تاہم جو غلطی لیڈر شپ کرتی ہے آنے والی کئی نسلوں کو اس غلطی کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے
چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی مقبولیت کا ڈنکا چار دانگ عالم بج رہا ہے، وہ مقبولیت کی بنیاد پر کسی قاعدے قانون کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں، پچھلے چند روز میں انہوں نے جو بیانیہ قائم کیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ عوام جس لیڈر کے ساتھ ہوں اسے کٹہرے میں کھڑا نہیں کیا جا سکتا۔ نوجوان خان صاحب کی اصل طاقت ہیں، جو کسی بھی خطرے سے ٹکرانے کیلئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں، خان صاحب کو خواتیں میں بھی خوب پذیرائی حاصل ہے، اسی طرح شوبز سے تعلق رکھنے والا طبقہ بھی خان صاحب کو پسند کرتا ہے۔ سوال مگر یہ ہے کہ کیا مقبولیت کو قانون سے بالاتر ہونے کا پیمانہ قرار دیا جا سکتا ہے؟ قانون کے ادنیٰ طالب علم ہونے کی حیثیت سے مجھے کوئی ایسی نظیر دکھائی نہیں دی کہ جس میں مقبولیت یا اعلیٰ منصب کی وجہ سے کسی سے رعایت برتی گئی ہو۔ بلکہ تاریخ انسانی میں ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں کہ عدالت نے جب وقت کے حکمران کو طلب کیا تو وہ بخوشی عدالت میں پیش ہوئے اس عمل سے ان کے وقار میں اضافہ ہوا۔
خان صاحب نوجوانوں کو اپنی اصل قوت قرار دیتے ہیں لیکن تاریخ گواہ ہے کہ ماضی میں جن قائدین نے نوجوانوں اور سٹوڈنٹس فیڈریشن کو مضبوط کیا بعد میں انہیں اس قدر خوف لاحق ہوا کہ انہوں نے خود ہی سٹوڈنٹس فیڈریشن کو ختم کر دیا۔ قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کے بارے کہا جاتا ہے کہ انہوں نے سٹوڈنٹس فیڈریشن سے خائف ہو کر اسے ختم کر دیا تھا، جنرل ضیاء الحق نے تو سٹوڈنٹس فیڈریشن پر پابندی عائد کئے رکھی جو برسوں تک جاری رہی اور بے نظیر بھٹو نے اسے ختم کیا۔ ماضی کے تجربات سے معلوم ہوتا ہے کہ جو نوجوان آج خان صاحب پر جی جان لٹانے پر تیار ہیں، کسی مقام پر وہ خان صاحب کی راہ میں آ کھڑے ہوں گے، تب انہیں معلوم ہو گا کہ نوجوانوں کو بے مہار آزادی دے کر انہوں نے کتنی بڑی غلطی کی ہے۔
خان صاحب نے عدالتوں میں پیش نہ کر جو روایت قائم کی ہے اس کے اثرات برسوں تک رہیں گے، لاہور اور اسلام آباد میں جتھوں کے ساتھ عدالت میں جانا انہی کا خاصا ہے ماضی میں بھی سیاسی قائدین کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے کارکنان عدالتوں میں جاتے رہے ہیں لیکن پولیس کے ساتھ پنجہ آزمائی کی کسی کو جرات نہیں ہوئی۔ تحریک انصاف خان صاحب کی جان کو لاحق خطرات کو عذر کے طور پر پیش کرتی ہے مگر قانونی تقاضے پورے کرنے کیلئے یہ عذر کافی نہیں ہے۔ ایسے حالات میں الیکشن کا انعقاد خطرات کو بڑھا دے گا، خاکم بدہن کہیں ایسا نہ ہو کہ ان انتخابات کا شمار ملک کے پرتشدد انتخابات میں ہو۔
سارا ملبہ خان صاحب پر ڈالنا اور دیگر سیاسی جماعتوں کی قیادت کو بری الذمہ قرار دینا قرین انصاف نہ ہو گا۔ ملک کی تباہی میں تمام سیاسی جماعتیں برابر کی حصہ دار ہیں۔ ملکی مفاد میں اقتدار کے تمام شراکت داروں کا اکٹھ وقت کا تقاضا ہے، مگر اپنی انا کی خاطر کوئی پہل کرنے کیلئے تیار نہیں ہے، ہر دو جانب سے دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ وہ ملک کی خاطر بیٹھنے کیلئے تیار ہے خان صاحب بھی یہ بات ویڈیو پیغام میں کرتے ہیں، اسی طرح وزیراعظم شہبازشریف کی طرف سے متعدد بار مذاکرات کی پیشکش کی گئی ہے لیکن زبانی کلامی۔ عملی طور پر کوئی پیش رفت سامنے نہیں آ سکی ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ سیاسی جماعتیں مل بیٹھنے کیلئے سنجیدہ نہیں ہیں کیا انہوں نے ملک و قوم کو مزید ابتلا میں ڈالنا ہے؟ جب سیاسی جماعتیں سنجیدہ ہوں گی تو بات چیت اور مذاکرات کے سو راستے نکل آئیں گے۔ ملک معاشی بحران کی لپیٹ میں ہے ایسے حالات میں قوم کی نظریں لیڈر شپ پر مرکوز ہوتی ہیں، سیاسی لیڈر شپ مگر اپنے مفادات سے بالا ہو کر سوچنے سے قاصر ہے۔ قومیں ہر غلطی کی قیمت چکاتی ہیں تاہم جو غلطی لیڈر شپ کرتی ہے آنے والی کئی نسلوں کو اس غلطی کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔