رمضان المبارک کا استقبال کیسے کریں؟
اللہ کی بے پایاں رحمتوں اور برکتوں والا ماہ مقدس چند روز بعد ایک بار پھر ہم پر سایہ فگن ہونے والا ہے، اس پر ہم اللہ کا جتنا شکر ادا کریں کم ہے، کیونکہ کتنے لوگ ہیں جو گزشتہ سال ہمارے ساتھ تھے لیکن انہیں اس سال رمضان کا مہینہ دیکھنا نصیب نہیں ہوا، اس رمضان ہماری زیادہ سے زیادہ کوشش ہونی چاہئے کہ ہمارا وقت یاد الہیٰ اور نیک کاموں میں گزرے کیونکہ کیا معلوم ہمیں آئندہ سال رمضان دیکھنا نصیب ہو یا نہ ہو۔ رمضان کے دنوں کو قرآن مجید میں گنتی کے دن کہا گیا ہے، رمضان ہمارے پاس ایسا مہمان بن کر آتا ہے، جو ہم پر اللہ کی رحمتوں کے در کھول دیتا ہے اور ہمارے دامن نیکیوں سے بھر دیتا ہے۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو اس مہمان کی قدر کرتے ہیں اور بد نصیب ہیں وہ انسان جو اس مہمان کی ناقدری کر کے اللہ کی رحمتوں سے محروم ہو جاتے ہیں۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’جس نے ایمان کے جذبے سے اور طلبِ ثواب کی نیت سے رمضان کا روزہ رکھا ، اس کے گزشتہ گناہوں کی بخشش ہوگئی۔‘‘(بخاری و مسلم، مشکوٰۃ)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’(نیک) عمل جو آدمی کرتا ہے تو (اس کے لیے عام قانون یہ ہے کہ ) نیکی دس سے لے کر سات سو گنا تک بڑھائی جاتی ہے،اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: مگر روزہ اس (قانون) سے مستثنیٰ ہے ( کہ اس کا ثواب ان اندازوں سے عطا نہیں کیا جاتا )کیوں کہ وہ میرے لیے ہے اور میں خود ہی اس کا (بے حد و حساب ) بدلہ دوں گا، (اور روزے کے میرے لیے ہونے کا سبب یہ ہے کہ) وہ اپنی خواہش اور کھانے (پینے) کو محض میری (رضا) کی خاطر چھوڑتا ہے، روزہ دار کے لیے دو فرحتیں ہیں،ایک فرحت افطار کے وقت ہوتی ہے، اور دوسری فرحت اپنے رب سے ملاقات کے وقت ہوگی، اور روزہ دار کے منہ کی بو (جو خالی معدہ کی وجہ سے آتی ہے)اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک (و عنبر) سے زیادہ خوشبودار ہے۔(بخاری و مسلم، مشکوٰۃ)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’روزہ اور قرآن بندے کی شفاعت کرتے ہیں (یعنی قیامت کے دن کریں گے)، روزہ کہتا ہے: اے رب! میں نے اس کو دن بھر کھانے پینے سے اور دیگر خواہشات سے روکے رکھا، لہٰذا اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرمائیے۔ اور قرآن کہتا ہے کہ : میں نے اس کو رات کی نیند سے محروم رکھا ( کہ رات کی نماز میں قرآن کی تلاوت کرتا تھا) لہٰذا اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرمائیے، چنان چہ دونوں کی شفاعت قبول کی جاتی ہے۔‘‘(بیہقی، مشکوٰۃ)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’رمضان کی خاطر جنت کو آراستہ کیا جاتا ہے، سا ل کے آغاز سے اگلے سال تک، پس جب رمضان کی پہلی تاریخ ہوتی ہے تو عرش کے نیچے سے ایک ہوا چلتی ہے(جو )جنت کے پتوں سے( نکل کر ) جنت کی حوروں پر ( سے )گزرتی ہے تو وہ کہتی ہیں: اے ہمارے رب!اپنے بندوں میں سے ہمارے ایسے شوہر بنا جن سے ہماری آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور ہم سے ان کی آنکھیں۔ (رواہ البیہقی، ورواہ الطبرانی)
حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے خود سنا ہے کہ : ’’یہ رمضان آچکا ہے، اس میں جنت کے دروازے کھل جاتے ہیں، دوزخ کے دروازے بند ہوجاتے ہیں، اور شیاطین کو طوق پہنا دیے جاتے ہیں ، ہلاکت ہے اس شخص کے لیے جو رمضان کا مہینہ پائے اور پھر اس کی بخشش نہ ہو۔‘‘(رواہ الطبرانی)