مؤذن رسول سیدنا بلال کی آخری اذان
سیدنا حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو شام میں سکونت پذیر ہوئے چھ ماہ کا عرصہ گزرا تھا کہ ایک روز شب کے وقت خواب کے دوران آپ کو سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس قدر ظلم کرتے ہو کہ ہماری زیارت کو بھی نہیں آ سکتے؟ سیر الصحابہ جلددوم (ص ۲۱۲) پر تحریرہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بلال رضی اللہ عنہ یہ خشک زندگی کب تک؟ کیا تمہارے لیے یہ وقت نہیں آیا کہ ہماری زیارت کرو؟
عشق و محبت کے دیوانے بلال رضی اللہ عنہ اسی وقت بلا تامل مدینہ کی طرف روانہ ہو گئے۔ مدینہ کے قریب جا کر انہوں نے کسی سے سیدۃ النساء حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اور ان کے صاحبزادوں حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ و حسین رضی اللہ عنہ کا کسی سے حال دریافت کیا تو پتا چلا کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا تو جنت کو سدھار چکیں البتہ امام حسن اور حسین رضی اللہ عنہما دونوں ہیں۔ یہاں تک کہ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ مدینہ تشریف لائے۔
سیر الصحابہ میں (جلد دوم ص۲۱۲) مذکور ہے کہ مدینہ شریف پہنچ کر روضۂ اقدس پر حاضری دی اور مرغ بسمل کی طرح تڑپنے لگے۔ آنکھوں سے سیل اشک رواں تھا اور مضطربانہ جوش و محبت کے ساتھ جگر گوشگان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو چمٹا چمٹا کر پیار کر رہے تھے۔ لوگوں کی خواہش تھی کہ آپ رضی اللہ عنہ مسجد نبوی میں اذان دیں لیکن کسی میں جرأت نہ تھی کہ سیدنا حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو کہیں کہ وہ اذان دیں مدارج النبوت میں شیخ محمد عبدالحق محدث دہلوی لکھتے ہیں:
پس لوگ حضرت امام حسن و حسین رضی اللہ عنہ کی خدمت میں درخواست گزار ہوئے کہ بلال رضی اللہ عنہ سے اذان کہلوائیں وہ ان کا کہنا ہر گز رد نہیں کر سکتے۔ سیر الصحابہ اور اسد الغابہ میں مذکور ہے کہ
’’ ان دونوں (حضرت امام حسن و حسین رضی اللہ عنہم ) نے خواہش ظاہر کی کہ آج صبح کے وقت اذان دیجئے۔‘‘
اگرچہ ارادہ کر چکے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اذان نہ دیں گے تاہم ان کی فرمائش نہ ٹال سکے۔ چنانچہ آپ صبح کی اذان دینے کے لیے اس جگہ کھڑے ہوئے جس پر وہ نبی کریم ﷺ کے زمانۂ اقدس میں کھڑے ہو کر اذان کہتے تھے۔
سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے جب اللہ اکبر کی آواز بلند کی تو لوگوں کی نظروں میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ اور اس دور کی یادیں تازہ ہو گئیں‘ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم حیات ظاہری میں موجود تھے۔ لوگوں نے زار و قطار رونا شروع کر دیا۔ جب اشھد ان لا الہ الا اللہ کی آواز بلند کی تو گریہ کاشور حد سے زیادہ ہو گیا۔ اس کے بعد جب روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اشارہ کر کے اشھد ان محمدا رسول اللہ کے الفاظ کہے تو سارے شہر میں کہرام مچ گیا اور رونے کا شور اس قدر بلند ہوا کہ پردہ دار دو شیزائیں بھی روتی ہوئیں گھروں سے باہر نکل آئیں۔ عاشقانِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رخسار آنسوئوں سے تر ہو گئے۔ بیان کیا گیا کہ مدینہ میں ایسا پراثر منظر کبھی دیکھنے میں نہیں آیا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ ہادی برحق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا آج ہی انتقال ہوا ہے۔